سلامتی

کوئٹہ کی فروٹ مارکیٹ میں طالبان کے خودکش دھماکے میں کم از کم 20 افراد ہلاک

عبدل غنی کاکڑ اور اے ایف پی

کوئٹہ کی فروٹ مارکیٹ میں 12 اپریل کو ہونے والے خودکش دھماکے میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور 40 سے زیادہ دیگر زخمی ہو گئے۔ ]عبدل غنی کاکڑ[

کوئٹہ -- حکام کا کہنا ہے کہ جمعہ (12 اپریل) کو ایک طاقتور خودکش دھماکے سے کم از کم 20 افراد ہلاک اور48 زخمی ہو گئے جس میں بظاہر ہزارہ شیعہ کی نسلی اقلیت کو کوئٹہ کی ایک پرہجوم فروٹ مارکیٹ میں نشانہ بنایا گیا تھا۔

جسم کے حصے جائے وقوعہ پر بکھرے ہیں اور زخمی ہونے والے متاثرین امداد کے لیے پکار رہے ہین جبکہ دھماکے کے بعد سیاہ دھویں نے بازار کو لپیٹ رکھا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک دھڑے نے ذمہ داری قبول کی ہے۔

گروہ نے کہا کہ اس نے لشکرِ جھنگوی (ایل ای جے) کے ساتھ مل کر کام کیا جو کہ پاکستان میں شیعہ مسلمانوں پر ان گنت حملوں میں ملوث رہا ہے۔ ایل ای جے نے فوری طور پر کوئی تصدیق نہیں کی ہے۔

سیکورٹی کے اہلکار 12 اپریل کو کوئٹہ کی ایک فروٹ مارکیٹ میں خودکش دھماکے کی جگہ کا معائنہ کر رہے ہیں۔ ]بنارس خان /اے ایف پی[

سیکورٹی کے اہلکار 12 اپریل کو کوئٹہ کی ایک فروٹ مارکیٹ میں خودکش دھماکے کی جگہ کا معائنہ کر رہے ہیں۔ ]بنارس خان /اے ایف پی[

امدادی کارکن 12 اپریل کو کوئٹہ میں خودکش دھماکے کی جگہ سے مریضوں کو لے جا رہے ہیں۔ ]عبدل غنی کاکڑ[

امدادی کارکن 12 اپریل کو کوئٹہ میں خودکش دھماکے کی جگہ سے مریضوں کو لے جا رہے ہیں۔ ]عبدل غنی کاکڑ[

بلوچستان کے وزیرِ داخلہ ضیاء اللہ لنگو نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد بتائی اور اس بات کی تصدیق کی کہ یہ ایک خودکش دھماکہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں سے دو بچے تھے۔

صوبائی پولیس چیف محسن حسن بٹ نے کہا کہ ہزارہ برادری کے آٹھ افراد، متاثرین میں شامل ہیں۔

مذمتیں

حکام نے فوری طور پر اس قتلِ عام کی مذمت کی۔

وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹ کیا کہ "کوئٹہ کے علاقے ہزارگنجی مارکیٹ کے علاقے میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے پر گہرا دکھ اور سخت مذمت کرتے ہیں جس میں ہمارے بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ میں نے فوری تحقیق کا حکم دے دیا ہے اور لوگوں کے لیے سیکورٹی بڑھا دی ہے"۔

لنگو نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میں اپنے عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ان بزدلانہ حملوں میں ملوث افراد کبھی بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم ۔۔۔ 24 گھنٹوں میں صوبائی حکومت کو ایک جامع رپورٹ جاری کرے گی"۔

بلوچستان کے وزیرِ صحت نصیب اللہ مری نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم اس بزدلانہ اور سنگدلانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ عسکریت پسند امن کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ صوبہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو ناکام بنایا جا سکے"۔

انہوں نے عہد کیا کہ "انصاف کیا جائے گا"۔

زدپذیر اقلیت

ہزارہ سنی عسکریت پسندوں کا زدپذیر ہدف ہیں جو انہیں بدعتی سمجھتے ہیں۔ شہر کے 2.3 ملین شہریوں میں سے ہزارہ افراد کی تعداد تقریبا 500,000 ہے۔

چونکہ انہیں مسلسل نشانہ بنایا جاتا ہے اس لیے وہ شہر کے دو محفوظ علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ پولیس انہیں روزمرہ کے اشیاء خریدنے کے لیے ہر روز بازار تک نگرانی میں لے کر جاتی ہے۔

سینئر پولیس اہلکار عبدل رازق چیمہ نے کہا کہ کوئٹہ کے ہزار گنجی علاقے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

بم ایسے علاقے کے قریب ہوا جہاں مارکیٹ میں تقسیم کرنے کے لیے پیداوار کو لادا جا رہا تھا۔

ایک مزدور عرفان خان نے ہسپتال کے بستر سے بتایا کہ "میں ایک چھوٹے ٹرک پر سامان لاد رہا تھا اور مجھے زبردست دھماکہ سنائی دیا اور مجھے لگا کہ میرے نیچے کی زمین لرز گئی ہے اور میں گر گیا"۔

انہوں نے کہا کہ "سارا ماحول کالے دھویں سے بھرا ہوا تھا اور مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں لوگوں کو مدد کے لیے پکارتا سن سکتا تھا اور میں خود چیخ رہا تھا"۔

انہوں نے کہا کہ فضاء "جلے ہوئے انسانی گوشت کی بدبو سے اٹی ہوئی تھی"۔

مزید حفاظت کے مطالبات کا جواب

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان میں کہا کہ دھماکہ ایک "تکلیف دہ یاددہانی" تھا ان بہت سے حملوں کی جن کا ہزارہ برادری کو کئی سالوں کے دوران کوئٹہ میں سامنا کرنا پڑا ہے۔

بلوچستان میں حکام ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے سینئر اہلکار نبیل یوسف نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "باقی کے صوبہ میں سیکورٹی کو انتہائی زیادہ کر دیا گیا ہے۔ بلوچستان کے تمام حساس علاقوں میں اضافی فوجیوں کو تعینات کر دیا گیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "آج بلوچستان کے وزیرِ اعلی جام کمال کے سکریٹریٹ میں قانون نافذ کرنے کی ایک اعلی سطحی میٹنگ ہوئی"۔ انہوں نے مزید کہا کہ شرکاء نے "پورے صوبہ کی سیکورٹی کی صورتِ حال کا جائزہ لیا"۔

پاکستان فارورڈ کو کوئٹہ میں ایک پریس بریفنگ میں پتہ چلا کہ کمال نے سیکورٹی ایجنسیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ صوبہ میں چھپے ہوئے کالعدم عسکریت پسند گروہوں کے خلاف نشانہ بنا کر کیے جانے والے حملے کریں۔

صوبائی وزراء نے اسی بریفنگ میں کہا کہ حکام کوئٹہ میں سیکورٹی کے انتظامات اور سیف سٹی پراجیکٹ کا دوبارہ جائزہ لے رہے ہیں جسے کوئٹہ نے 2018 کے آغاز میں نافذ کرنا شروع کیا تھا اور جو شہر میں بہتر سیکورٹی کی بنیاد ہو گا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500