سفارتکاری

کاروباری ناراضگی کو بڑھاتے ہوئے، بلوچستان میں ایرانی قونصل خانے نے اپنی خدمات معطل کر دیں

از عبدالغنی کاکڑ

8 اپریل 2019 کو مزدور ایک غلہ منڈی میں چاول کے تھیلے اتارتے ہوئے۔ چاول کا شمار ایران کو پاکستان کی مرکزی برآمدات میں ہوتا ہے۔ کوئٹہ میں ایرانی قونصل خانے پر خدمات کی حالیہ معطلی نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا ہے۔ [رضوان تبسم/اے ایف پی]

8 اپریل 2019 کو مزدور ایک غلہ منڈی میں چاول کے تھیلے اتارتے ہوئے۔ چاول کا شمار ایران کو پاکستان کی مرکزی برآمدات میں ہوتا ہے۔ کوئٹہ میں ایرانی قونصل خانے پر خدمات کی حالیہ معطلی نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا ہے۔ [رضوان تبسم/اے ایف پی]

کوئٹہ -- کوئٹہ میں ایرانی قونصل خانے نے ایک پاکستانی بینک کی جانب سے 4 اپریل کو اپنے کھاتے بند کرنے کے بعد بلوچستان میں ویزہ خدمات اور تجارتی سرگرمیوں میں سہولت کاری معطل کر دی ہے، جس سے کچھ کاروباری اداروں میں ناراضگی بڑھ گئی ہے جن کا کہنا ہے کہ اس خلل کا الزام ایران پر عائد ہوتا ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر قونصل خانے میں کام کرنے والے کوئٹہ کے مقامی ایک ایرانی سینیئر اہلکار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہمارے دو سرکاری کھاتے جو حبیب بینک کوئٹہ میں تھے انہیں بینک انتظامیہ کی جانب سے بغیر کوئی ٹھوس وجہ دکھائے بند کر دیا گیا ہے۔"

اگرچہ بینک نے کوئی باضابطہ وجہ نہیں بتائی ہے، قونصل خانے کے حکام کا کہنا تھا کہ اس اقدام کی وجہ ایران کی نیوکلیائی سرگرمیوں کی وجہ سے اس کے خلاف امریکی پابندیاں ہیں۔

ان اقدامات کے علاوہ، امریکی وزارتِ خزانہ نے جنوری نے شام میں لڑنے والیایرانی پشت پناہی کی حامل فاطمیون ڈویژن اور زینبیون بریگیڈ ملیشیاؤںپر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا تھا۔

کوئٹہ میں حبیب بینک کی مرکزی شاخ 11 اپریل کو دکھائی گئی ہے۔ 4 اپریل کو بینک نے دو سرکاری کھاتے بند کر دیئے تھے جو کوئٹہ میں ایرانی قونصل خانے کے تھے۔ [عبدالغنی کاکڑ]

کوئٹہ میں حبیب بینک کی مرکزی شاخ 11 اپریل کو دکھائی گئی ہے۔ 4 اپریل کو بینک نے دو سرکاری کھاتے بند کر دیئے تھے جو کوئٹہ میں ایرانی قونصل خانے کے تھے۔ [عبدالغنی کاکڑ]

8 اپریل کو امریکہ نے پاسدارانِ اسلامی انقلاب دستوں (آئی آر جی سی) کو بطور دہشت گرد تنظیم نامزدبھی کیا تھا، اور آئی آر جی سی کے ساتھ رابطے اور اس کے لیے مادی امداد کو ایک جرم قرار دیا تھا۔

ایرانی سفارتکار نے کہا، "سرکاری بینک کھاتوں کو بند کرنے کی وجہ سے، ہم نے تاحکمِ ثانی بلوچستان میں ویزہ خدمات اور معاشی خدمات کو معطل کر دیا ہے۔ ہمارے سفارتی مشن نے یہ مسئلہ پاکستانی وزارتِ خارجہ میں اٹھایا ہے، اور ہم مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔"

اہلکار نے کہا، "بینک انتظامیہ نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ اب مزید قونصل جنرل کے دفتر کو کھاتے کی خدمات پیش نہیں کر سکتی۔"

اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے میں تعینات ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اگر کسی کو زیارات یا دیگر زمروں کے لیے ایرانی ویزہ حاصل کرنے میں دلچسپی ہے، تو اسے ہمارے کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں واقع قونصل خانوں پر ویزے کی درخواست دینی ہو گی۔"

حکمتِ عملی کی کمی

پاکستانی کاروباری حضرات اور تاجر خدمات فراہم کرنے میں ناکامی پر ایران کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں جو سب سے زیادہ بے آرامی کا باعث ان لوگوں کے لیے ہے جن کا روزگار کثرت سے ایران جانے کا متقاضی ہے۔

وہ ایران کو خود اپنی معیشت کی بحالی کے لیے مزید کام کرنے میں ناکامی پر بھی قصور وار ٹھہراتے ہیں۔

ایک تاجر اور کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سینیئر رکن، عبدالعلی خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "موجودہ صورتحال ہمارے تاجروں اور برآمد کنندگان کو بہت بھاری نقصان ہونے کا سبب بن رہی ہے۔"

انہوں نے کہا، "یہ ایرانی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ان پاکستانی تاجروں کے ساتھ اپنے وعدے کو پورا کرنا یقینی بنائے جنہوں نے ایران کے ساتھ تجارت میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔"

ان کے کاروباروں کو ترقی دینے کے ان وعدوں، جنہیں اب ایران پورا نہیں کر سکتا، کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، "آج ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ان بینک کھاتوں کے بند ہونے کے بعد، ایرانی قونصل خانے نے اپنے وعدے معطل کر دیئے ہیں،" جس سے تاجر متاثر ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا، "ایران کے ساتھ ہمارے روابطایرانی حکومت کی غیرسنجیدہ حکمتِ عملی کی وجہ سےخطرے میں پڑ گئے ہیں۔"

ایک معروف پاکستانی تاجر اور کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر، عبدالودود اچکزئی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہمارے برآمدکنندگان کو ایران کے ساتھ تجارت میں کروڑوں ڈالر کے نقصانات کا سامنا ہے، اور ابھی تک ایرانی حکومت نے اس عمل کو ہموار بنانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے۔"

'بحران'

انہوں نے کہا، "ہم کوئٹہ میں ایرانی قونصلیٹ جنرل سے مسلسل رابطے میں ہیں اور اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فی الحال، ایرانی کرنسی کی قدر کا مزید گرنا ہماری برادری کی بڑی تشویشوں میں سے ایک ہے۔"

اچکزئی نے کہا، "پچھلے سال پاکستان میں ایرانی سفیر نے ہمیں یقین دہانی کروائی تھی کہ ایران پاکستانی تاجروں کو بحران میں سہولیات دے گا، مگر ہمیں ابھی تک کوئی سہولت نہیں دی گئی۔"

پاکستانی تاجروں کی ایک نامعلوم تعداد جو کوئٹہ میں ایرانی قونصل خانے میں رجسٹر ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، "ایران کے ساتھ ہماری تجارت کا سالانہ حجم تقریباً 1.5 ملین ڈالر [212 ملین روپے] ہے۔"

کوئٹہ کے مقامی ایک ماہرِ اقتصادیات، عبدالرحمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "میرا خیال ہے کہ ایرانی بینک کھاتوں کی بندش ان پاکستانی تاجروں کے لیے مسائل میں بہت زیادہ اضافہ کر دے گی جن کے اپنے درآمد-برآمد کے کاروبار کے لیے ایران کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔"

رحمان کے مطابق پاکستان کی ایران کو بڑی برآمدات چاول، ٹیکسٹائل اور کاغذ ہیں۔ بڑی درآمدات میں پیٹرولیم، برقی توانائی کی مصنوعات اور پھل شامل ہیں۔

انہوں نے کہا، "ایران کو آج جو کچھ بھی دیکھنا پڑ رہا ہے، یہ اس کی اپنی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، اور میرے اندازے کے مطابق، پاکستان کو لازماً ایران کے ساتھ مشغولیت کے ان امور پر نظرِ ثانی کرنی چاہیئے جو اس [پاکستان] کی بین الاقوامی برادری میں تنہائی کا سبب بن سکتے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 4

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ نہایت اہم ہے

جواب

Iran ne kb pakistan ka mafad dikha hy, enko aese hi chor dena chahiye q k ye waise b dunya me tanha reh gaye hai

جواب

ہمیں اب پاکستان کے سلامتی کے طرف دیکھنا چاہئے کلبھوشن کے روپ میں جاسوس ھم مزید برداشت نہیں کر سکتے

جواب

ایران کبھی بھی پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا

جواب