تعلیم

کے پی اسکولوں میں تعمیرِ نو کے درمیان بہتریاں

از سید عنصر عباس

ضلع سوات میں گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول رونیال کی طالبات 26 مارچ کو بین الاقوامی مخیر اداروں کی جانب سے عطیہ کردہ بستے دکھاتے ہوئے۔ سنہ 2009-2007 میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تباہ ہونے کے بعد یہ سکول مزدوروں نے حال ہی میں دوبارہ تعمیر کیا ہے۔ [سید عنصر عباس]

ضلع سوات میں گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول رونیال کی طالبات 26 مارچ کو بین الاقوامی مخیر اداروں کی جانب سے عطیہ کردہ بستے دکھاتے ہوئے۔ سنہ 2009-2007 میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تباہ ہونے کے بعد یہ سکول مزدوروں نے حال ہی میں دوبارہ تعمیر کیا ہے۔ [سید عنصر عباس]

پشاور -- حکومتِ خیبرپختونخوا (کے پی) نے، بین الاقوامی مخیر اداروں جیسے کہ امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کی مدد سے، پورے صوبے میں ان 179 سکولوں کی تعمیرِ نو کی ہے جنہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران عسکریت پسندوں نے نقصان پہنچایا تھا۔

حکام نے 25 مارچ کو پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ پشاور میں صوبائی محکمۂ انتظامِ ہنگامی حالات (پی ڈی ایم اے) کے مطابق، سوات میں، بونیر، لوئر دیر اور اپر دیر کے اضلاع میں مزدوروں نے 162 سکولوں کو دوبارہ تعمیر کیا ہے۔ انہوں نے مزید 12 سکول بنوں میں، 3 ہنگو میں اور کوہاٹ اور ٹانک کے اضلاع میں ایک ایک سکول کو دوبارہ تعمیر کیا۔

زیادہ تر سکولوں کو سنہ 2007 تا 2009 کے درمیان نقصان پہنچا تھا۔ مزدوروں نے سنہ 2016 تک ضروری تعمیرِ نو کا اکثریتی کام مکمل کر لیا تھا۔ پی ڈی ایم اے نے کہا کہ ابھی بھی، کچھتعلیمی عمارات مکمل بحالی کی منتظر ہیں۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق، کُل میں سے، 49 تعلیمی ادارے، بشمول 42 سکول، چار کالج، دو پولی ٹیکنیک ادارے اور سوات کا ودودیہ ماڈل سکول، پاکستان کے امدادی پروگرام (یو پی اے پی) کے تحت متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی مالی امداد سے دوبارہ تعمیر کیے گئے۔

25 مارچ کو سوات میں طلباء ایک نوتعمیر شدہ لڑکوں کے سکول کے باہر کھیلتے ہوئے۔ [سید عنصر عباس]

25 مارچ کو سوات میں طلباء ایک نوتعمیر شدہ لڑکوں کے سکول کے باہر کھیلتے ہوئے۔ [سید عنصر عباس]

مزید برآں، امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کی جانب سے عطیہ کردہ 3.5 بلین روپے (25 ملین ڈالر) کے ساتھ صوبائی ادارہ برائے تعمیرِ نو، بحالی و آبادکاری (پی اے آر آر ایس اے) نے مالاکنڈ ڈویژن میں 113 نقصان زدہ سکولوں کی تعمیرِ نو کی۔

پاکستانی فوج، کے پی حکومت اور این جی اوز، نے حکومتِ پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ 2 بلین روپے (14 ملین ڈالر) کی رقم کے ساتھ، بنوں، ہنگو، کوہاٹ اور ٹانک کے اضلاع میں دہشت گردوں کے ہاتھوں نقصان زدہ سکولوں کو دوبارہ تعمیر کیا۔

زیادہ گنجائش

25 مارچ کو پی ڈی ایم اے-پی اے آر آر ایس اے کے ترجمان، لطیف الرحمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم نے مالاکنڈ ڈویژن میں لگ بھگ تمام نقصان زدہ سکولوں، کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کی تعمیرِ نو مکمل کر لی ہے، ایک ہدف جسے یو ایس ایڈ اور یو اے پی کی مالی امداد کے ساتھ مکمل طور پر حاصل کر لیا گیا ہے۔"

انہوں نے کہا، "ابدہشت گردوں کا نشانہ بنے نوتعمیر شدہ سکولوںمیں زیادہ کمرے اور دیگر سہولیات ہیں،" انہوں نے مزید کہا کہ نئی گنجائش کا مطلب ہے کہ مزید نئے طلباء و طالبات سکول جانے کے قابل ہیں۔

رحمان نے کہا، "نوتعمیر شدہ سکولوں میں داخلوں میں اضافے کی شرح 30 فیصد سے 40 فیصد تک رہی ہے۔"

پی ڈی ایم اے-پی اے آر آر ایس اے میں ایک نگرانی کرنے والے افسر، عبدالحکیم نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ مقامی باشندے، والدین، طلباء و طالبات اور اساتذہ بہتر عمارتوں سے بہت خوش ہیں۔

انہوں نے کہا، "میں اکثر ان سکولوں میں جاتا ہوں اور سکولوں کی انتظامیہ، اساتذہ، طلباء و طالبات اور والدین کی آراء، خیالات اور تجاویز سے خود کو باخبر رکھنے کے لیے ان سے ملاقاتیں کرتا ہوں۔ والدین، اساتذہ اور طلباء و طالبات نئی سہولیات سے خوش ہیں۔"

عبدالحکیم نے کہا کہ نقصان پہنچنے سے پہلے پرائمری سکول دو کمروں پر مشتمل تھے؛ نوتعمیر شدہ سکولوں میں چھ کمرے ہیں۔

مٹہ سرکل ضلع سوات میں ایک تعلیمی افسر، محمد گل نے بھی کہا کہ انہوں نے علاقے کے تمام سکولوں کا دورہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی باشندے سکولوں کی تعمیرِ نو کے لیے فنڈز فراہم کرنے میں پی اے آر آر ایس اے اور یو ایس ایڈ کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔

کام کی قبائلی اضلاع میں منتقلی

کے پی میں ایلیمنٹری اور سیکینڈری تعلیم کے سیکریٹری، ارشد خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ خصوصاً مالاکنڈ ڈویژن میں مزدوروں نے عسکریت پسندوں کی جانب سے نقصان پہنچائے گئے لگ بھگ تمام سکول دوبارہ تعمیر کر لیے ہیں۔

خان نے کہا، "تمام نقصان زدہ سکول دوبارہ تعمیر ہو چکے ہیں۔ باقی ماندہ 99 تباہ شدہ سکولوں کی تعمیرِ نو کا کام جاری ہے اور بہت جلد مکمل کر لیا جائے گا۔"

کے پی محکمۂ تعلیم کے مطابق، عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں نے کے پی میں -- زیادہ تر سنہ 2007 تا 2009 -- 384 سکول تباہ کیے تھے اور پورے صوبے میں 476 سکولوں کو نقصان پہنچایا تھا۔

خان نے کہا کہ کے پی محکمۂ تعلیم نے ان علاقوں میں نقصان زدہ سکولوں کی شناخت کے لیے قبائلی اضلاع میں ایک سروے شروع کیا ہے اور امید ہے کہ اسے دو ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا۔

وزیرِ اعلیٰ کے پی کے مشیر برائے تعلیم، ضیاء اللہ بنگش نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "تعلیم کے پی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔" انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقہ جات میں "عسکریت پسندوں کا نشانہ بنے علاقے" تعمیرِ نو کے لیے "اب ہمارا ہدف" ہیں۔

بنگش نے کہا، "صوبے میں نئے تعلیمی ادارے قائم کرنے سے قبل، ہم سکولوں اور کالجوں کی تعمیرِ نو پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں -- خواہ انہیں دہشت گردی کی وجہ سے نقصان پہنچا تھا، یا زلزل یا سیلابوں سے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

تعلیم طاقتور ترین ہتھیار ہے جسے آپ دنیا کو بدلنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

جواب

خطے میں تعلیمی شعبہ میں عسکریت پسندوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر تباہی کے بعد مالاکنڈ ڈویژن میں تعلیمی تنصیبات کی بحالی کے لیے کاوشوں کو نمایاں کرنے کے لیے ایک اچھی اور قابلِ تحسین کوشش۔ عبدالحکیم

جواب