سلامتی

پاکستان دہشت گردی میں سرمایہ کاری، منی لانڈرنگ کے خلاف کارروائی کے لیے قوانین کو مزید بہتر بنا رہا ہے

از اشفاق یوسفزئی

21 مارچ کو پشاور کے مکین زرِ مبادلہ کی ایک دکان سے پاس سے گزرتے ہوئے۔ [اشفاق یوسفزئی]

21 مارچ کو پشاور کے مکین زرِ مبادلہ کی ایک دکان سے پاس سے گزرتے ہوئے۔ [اشفاق یوسفزئی]

اسلام آباد -- تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے حال ہی میں منصوبہ بندی کردہ انسدادِ دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے قوانین کا انضمام دہشت گردی اور اس میں سرمایہ کاری کی بیخ کنی کی جانب ایک بڑا قدم ہو گا۔

ڈان نیوز نے خبر دی ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے منی لانڈرنگ کی روک تھامکے لیے اقدامات پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے 13 مارچ کو اعلیٰ سرکاری حکام کے ایک اجلاس کی صدارت کی۔

وزیرِ قانون فروغ نسیم نے شرکاء کو انسدادِ منی لانڈرنگ کے موجودہ قانون اور انسدادِ دہشت گردی کے قانون مجریہ 1997 کے متعلق مختصراً بتایا، اور شرکاء نے قوانین کو ضم کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ تجویز جلد ہی پارلیمان میں جائے گی، جہاں اس کی منظوری کو ایک رسم تصور کیا جاتا ہے۔

اس اقدام کا مقصد ملزمان کے خلاف ایک قانون کے تحت مقدمہ قائم کرنا ہے، جو دونوں جرائم کو منسلک کرنے کو آسان تر بناتا ہے۔

شرکاء نے مجوزہ ترامیم پر بھی تبادلۂ خیال کیا جو منی لانڈرنگ کو ایک قابلِ تعزیر اور ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیں گی اور ایسے الزامات کے تحت جرم ثابت ہونے پر انتہائی سزا میں اضافہ کر کے اسے 10 سال سزائے قید اور 5 ملین روپے (35،790 ڈالر) بنا دیں گی۔

خان نے کہا کہ منی لانڈرنگ کرنے والے "قوم کے دشمن ہیں، ایسے عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔"

دہشت گردی میں سرمایہ کاری کی روک تھام

پشاور کے مقامی وکیل نور عالم خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہمیں دونوں قوانین کو ضم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ منی لانڈرنگ دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے آمدن کا بنیادی وسیلہ رہا ہے۔ پیرس کی مقامی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) پاکستان پر زور ڈالتی رہی ہے کہمنی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو منی لانڈرنگ پر قابو پانے کی ضرورت ہے کیونکہ منتقل ہونے والے بہت سے سرمائے نے دہشت گردی کی کارروائیوں میں سرمایہ کاری میں مدد کی ہے۔ "پاکستان کو غیرقانونی ذرائع سے پیسے کی منتقلی کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے اور دہشت گردی میں سرمایہ کاری کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے، جو کہ ایف اے ٹی ایف کا مطالبہ ہے۔"

خان نے کہا، "امریکہ میں 11/9 کے واقعہ کے بعد، عالمگیر سطح پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ غیربینکنگ ذرائع سے منتقل ہونے والا سرمایہ دہشت گردی میں لگتا ہے۔"

خان نے کہا، "اس کے بعد سے، بہت سے ممالک نے مالیاتی لین دین کی پڑتال کرنے اور دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے قوانین منظور کیے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ جب پاکستان دونوں قوانین کو ضم کر دے گا تو اس کے پاس پیسے کی منتقلی پر لگانے کے لیے نئی پابندیاں ہوں گی۔

یہ اقدام معاشی اصلاحات کو تیز کرنے، ٹیکس چوری کو روکنے اور تجارت میں اضافہ کرنے میں حکومت کی مدد کرے گا، اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے، خان نے کہا، "یہ ملک کو بینکوں کے ذریعے قانونی طور پر پیسے بھیجنے والوں کے متعلق ایک ڈیٹا بینک قائم کرنے کے قابل بنائے گا، وہ لوگ جو ہنڈی اور حوالہ میں ملوث ہیں قانون کی زد میں آ جائیں گے۔"

مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا

پشاور کے مقامی قانونی محقق شاہ نواز خان نے اتفاق کیا کہ دونوں قوانین کا انضمام منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں سرمایہ کاری کو روکنے میں مفید ثابت ہو گا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "قانون نافذ کرنے والے مختلف ادارے مضبوط ہو جائیں گے کیونکہ وہ دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے مجوزہ قوانین سے مستفید ہوں گے۔"

مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی پر پولیٹیکل سائنس کے استاد، عبدالرحمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ دو قوانین کے انضمام کے علاوہ، پاکستان کو پیسے کی غیر قانونی منتقلی کی روک تھام کے لیے بینک دولت پاکستان کے مالیاتی نگرانی کے یونٹ، قومی محکمۂ انسدادِ دہشت گردی، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی اور وفاقی محاصل بورڈ کی کوششوں کو تیز کرنا چاہیئے۔

انہوں نے کہا، "اگر یہ شعبہ جات فعال ہو کر کام کریں، تو ہم منی لانڈرنگ کے عفریت کے رکنے کی امید رکھ سکتے ہیں، اور ملک میں ناصرف دہشت گردی میں بلکہ غیرملکی قرضوں میں بھی کمی نظر آئے گی۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500