بغوز، شام -- منگل (19 مارچ) کو مشرقی شام میں اپنی نام نہاد "خلافت" کے آخری ٹکڑے کے دفاع کے لیے بڑھتی ہوئی مایوسی کے ساتھ دفاع میں بچے کھچے جہادی دریائے فرات کے کناروں پر اگے سرکنڈوں میں بھاگے پھر رہے تھے۔
پیش قدمی کرتی ہوئی امریکی پشت پناہی کی حامل کرد افواج نے "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے کٹر جنگجوؤں کو ان کی مرکزی لشکر گاہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا جہاں وہ حالیہ دنوں میں محصور رہے تھے۔
یہ اقدام مہینوں پرانی کارروائیوں کو داعش کی کبھی پھلتی پھولتی بنیادی ریاست کی آخری نشانیوں کا صفایا کر کے اس کے ناگزیر انجام پر لے آیا ہے، مگر شامی جمہوری فورسز (ایس ڈی ایف) اعلانِ فتح کے قریب پہنچ کر رک گئی ہیں۔
کچھ جہادی جو اب دریا کے خم میں چند کھیتوں کے لیے لڑ رہے ہیں ہتھیار ڈالنے پر رضامند نظر نہیں آتے، اور داعش کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے حملے کرنے کا ایک پیغام جاری کیا ہے۔
ایس ڈی ایف کے ترجمان، مصطفیٰ بالی نے کہا، "یہ اعلانِ فتح نہیں ہے بلکہ داعش کے خلاف جنگ میں ایک نمایاں پیشرفت ہے۔"
چند روز قبل، داعش کے قلعے میں سے آخری باشندوں کو لاریوں میں کھچا کھچ بھر کے بغوز کے کنارے ایک چھاؤنی میں لایا گیا تھا، جہاں تباہ شدہ گاڑیوں کے بے ترتیب انبار، جلد بازی میں کھودی گئی خندقیں اور عارضی خیمے لگے ہوئے ہیں۔
ان میں سے ہزاروں -- جنگجو، ان کے رشتے دار اور دیگر عام شہری -- حالیہ ہفتوں میں موت کے پھندے سے بھاگ نکلے اور ایس ڈی ایف کے قبضے میں ایک پوزیشن کی طرف جانے والی ایک قریبی پہاڑی پھلانگ کو خود کو ان کے حوالے کر دیا۔
کردوں کی سربراہی میں لڑنے والی فوج، جس میں مقامی عرب قبائل سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی شامل ہیں، منگل کے روز آگے بڑھی اور خالی قلعے میں پوزیشنیں سنبھال لیں، جس سے بچے کھچے جہادی ایک کونے میں لگ گئے۔
شامی افواج اور اتحادی افواج کو دریا اور سرحد کے دوسری جانب تعینات کیا گیا ہے تاکہ کسی کے بھی فرار ہونے کو روکا جائے۔
امریکی قیادت میں لڑنے والے اتحاد اور اس کے ایس ڈی ایف کے زمینی ساتھیوں کی جانب سےروزانہ فضائی حملوں اور گولہ باری کی وجہ سے، حالیہ دنوں میں سینکڑوں جنگجووں کو مار مار کر اطاعت گزاری پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
سقوطِ داعش
نام نہاد "خلافت"، جس کا اعلان اس کے امیر ابو بکر البغدادی نے سنہ 2014 کے وسط میں کیا تھا، کبھی برطانیہ سے بڑے علاقے پر محیط تھی، جو شام اور عراق میں پھیلا ہوا تھا۔
یہ کروڑوں باشندوں کا نظم و نسق سنبھالتی تھی، اپنا عدالتی نظام چلاتی تھی، اپنے ہی کرنسی سکے بنائے تھے، اپنی ہی اسکولوں کی کتابیں چھاپتی تھی اور عالمی پیمانے پر خوف و ہراس پھیلاتی تھی۔
کئی برسوں کے فوجی حملوں کے تحت یہ ٹوٹ پھوٹ چکی ہے جن میں شامی اور عراقی افواج نے بین الاقوامی اتحادیوں کی مدد سے زمین واپس تو لے لی مگر شہر کھنڈرات بن گئے اور آبادی بے گھر ہو گئی۔
بغدادی کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے، اور بغوز میں بچے کھچے جنگجو فٹبال کے چند گراؤنڈوں جتنی زمین کی خاطر لڑ رہے ہیں۔
عراق اور شام میں اس کے بہت سے قائدین اور جنگجو گوریلا جنگ پر واپس آ گئے ہیں، وہ صحرا، پہاڑوں اور کمین گاہوں سے حملہ کرتے اور بھاگ جاتے ہیں۔
بھوتوں جیسے حلیئے میں ہزاروں بھٹکتے پھرتے لوگ جو حالیہ ہفتوں میں داعش کے آخری گڑھ سے جوق در جوق نکلے تھے اب پرہجوم کیمپوں اور شمالِ بعید کے کردوں کے زیرِ انتظام جیلوں میں بھرے ہوئے ہیں۔
70،000 سے زائد افراد سب سے بڑے کیمپ -- الہول-- میں ٹھنسے ہوئے ہیں جن میں درجنوں مختلف قومیتوں کے 40،000 سے زائد بچے ہیں۔