سلامتی

امن سے لطف اٹھاتے ہوئے، باجوڑ ڈسٹرکٹ نے ناکوں، عسکری انتظامیہ کو کم کرنا شروع کر دیا

حنیف اللہ

پاکستانی فوج کے برگیڈیر نعیم اکبر راجہ (درمیان میں) 10 فروری کو خار میں باجوڑ اسکاوٹس ہیڈکواٹرز میں بزرگوں اور نوجوانوں کی ایک کونسل سے خطاب کر رہے ہیں۔ ]حنیف اللہ[

پاکستانی فوج کے برگیڈیر نعیم اکبر راجہ (درمیان میں) 10 فروری کو خار میں باجوڑ اسکاوٹس ہیڈکواٹرز میں بزرگوں اور نوجوانوں کی ایک کونسل سے خطاب کر رہے ہیں۔ ]حنیف اللہ[

باجوڑ -- باجوڑ ڈسٹرکٹ میں سیکورٹی فورسز نے، استحکام اور امن کو یقینی بنانے کے لیے ایک دہائی تک جاری رہنے والی کوششوں کے بعد، اسکولوں اور صحت عامہ کی سہولیات کا کنٹرول مقامی شہری حکام کے حوالے کر دیا ہے۔

باجوڑ کے لیے اسسٹنٹ تعلیمی افسر حمید اللہ جان نے 5 مارچ کو پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ گزشتہ ماہ دوبارہ سے سول کنٹرول میں آنے والے تعلیمی اداروں میں مقامی یونیورسٹی، لڑکیوں کا ایک پرائمری اسکول اور لڑکوں کا ایک مڈل اسکول شامل ہیں۔

اسکول اور دوسرے تعلیمی ادارے اگست 2008 سے پاکستانی فوج کے کنٹرول میں ہیں، جب سیکورٹی فورسز نے طالبان کے عسکریت پسندوں کو نکالنے کے لیے آپریشنز کا آغاز کیا تھا جنہوں نے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور وہ اسے پاکستان اور ہمسایہ ملک افغانستان میں متشدد سرگرمیوں کے لیے گڑھ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔

جان نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ انہیں مارچ میں کام کرنے کے قابل بنا دیا گیا تھا، کہا کہ امن کی بحالی کے بعد، سیکورٹی اہلکاروں نے فروری میں اداروں کو حوالے کر دیا تھا۔

بزرگ اور نوجوان، 10 فروری کو خار میں باجوڑ اسکاوٹس ہیڈکواٹرز میں منعقد ہونے والی ایک کونسل کے دوران برگیڈیر نعیم اکبر راجہ کا خطاب سن رہے ہیں۔ ]حنیف اللہ[

بزرگ اور نوجوان، 10 فروری کو خار میں باجوڑ اسکاوٹس ہیڈکواٹرز میں منعقد ہونے والی ایک کونسل کے دوران برگیڈیر نعیم اکبر راجہ کا خطاب سن رہے ہیں۔ ]حنیف اللہ[

فوج نے باجوڑ کے طبی صحت کے اداروں کو بھی مقامی شہری کنٹرول میں دے دیا ہے۔

باجوڑ کے شعبہ صحت کے ایک اہلکار ڈاکٹر عبدل رحمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ شہریوں نے دو بنیادی صحت کے یونٹس کا کنٹرول گزشتہ نومبر میں حاصل کیا تھا۔ "ان یونٹس میں شعبہ صحت کی سرگرمیاں پورے زور و شور سے جاری ہیں"۔

سیکورٹی کے ناکوں میں کمی

سیکورٹی فورسز نے فروری میں باجوڑ ایجنسی میں ناکوں کی تعداد میں کمی کا اعلان کیا تھا۔

پاکستان آرمی کے سیکٹر کمانڈر نارتھ برگیڈیر نعیم اکبر راجہ نے خار میں 10 فروری کو بزرگوں اور نوجوانوں کی کونسل کو بتایا کہ "مکمل امن کی بحالی کے بعد، ہم نے 2018 میں 12 چوکیوں کو ختم کر دیا اور 2019 میں مزید کو ختم کر دیا جائے گا

انہوں نے مزید کہا کہ باقی رہ جانے والی بہت سی چوکیوں کو لیوی فورسز کے ساتھ مل کر سنبھالا جائے گا۔

راجہ نے پہرہ نظام کے خاتمے کا اعلان بھی کیا جو کہ باجوڑ کے حساس علاقوں میں رہنے والے مقامی شہریوں پر قرب و جوار کی مسلح نگرانی کا نافذ کیا جانے والا نظام تھا تاکہ انہیں عسکریت پسندوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکام عسکری مہمات کے دوران جن عمارات کو نقصان پہنچا تھا، ان کی مرمت پر 500 ملین روپے (3.6 ملین ڈالر) خرچ کریں گے۔

مقامی شہریوں نے اس قدم کو خوش آمدید کہا

باجوڑ کے شہریوں اور شہری حکام نے مقامی اداروں کے انتظام کو سول حکام کے حوالے کرنے اور اس کے ساتھ ہی چیک پوائنٹس کو کم کرنے کے فیصلے کو خوش آمدید کہا ہے۔

قومی اسمبلی کے سابقہ رکن اور پاکستان پیپلز پارٹی باجوڑ کے سینئر راہنما سید اخونذادہ چٹان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم باجوڑ میں امن کو واپس لانے پر، باجوڑ کی سیکورٹی فورسز اور مقامی بزرگوں کے شکرگزار ہیں جو صرف ان کی قربانیوں کے باعث ہی ممکن ہو سکا"۔

انہوں نے کہا کہ "باجوڑ میں امن واپس آ گیا ہے"۔

مہمند کے رہائشی ہلال یاسر جو کہ خار کیں باجوڑ پریس کلب میں کام کرتے ہیں، نے کہا کہ علاقے کے رہنے والے امن کی بحالی کی خوش منا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "باجوڑ کے پرامن ماحول نے آخرکار ہمارے خواب پورے کر دیے ہیں اور ہم محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے، عسکریت پسندوں کی دھمکیوں کے باعث، رات کو آزادی سے گھومنا ممکن نہیں تھا مگر اب ہم رات گئے تک اکٹھے ہوتے ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500