نزد بغوز، شام -- انتہائی صدمے میں اور مفلوک الحال، سینکڑوں خواتین اور بچے "دولت اسلامیہ" (داعش) کے زیرِ تسلط آخری علاقے سے فرار ہونے کے بعد مشرقی شام کے طوفانی صحرا میں جو تھوڑا بہت سامان اٹھا سکتے تھے وہ اٹھائے ہوئے گرتے پڑتے گزر گئے۔
جہادیوں کے باقی ماندہ علاقے میں بچ جانے والے آخری لوگوں میں سے چند ایک، امریکی پشت پناہی کے حامل شامی جمہوری فورس (ایس ڈی ایف) کی جانب سے قائم کردہ جمع ہونے کے مقام پر لاریوں میں لدے ہوئے پہنچے۔
تلاش کر لیے جانے کے بعد، خواتین صحرا کی کھردری زمین میں گروہ بنا کر بیٹھ گئیں، ان کے لمبے چوغے گرد میں اٹے ہوئے تھے اور میلے کچیلے اور لاغر بچے ان کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے جو پانی اور روٹی کے امدادی ڈبوں پر ٹوٹ پڑے۔
دیر ایزور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون، گنجائش سے زیادہ بھرے ہوئے ایک بیگ کو گھسیٹتی اور ہاتھ میں ایک خالی جگ پکڑے ہوئے آئی، اور چیخ کر پانی مانگا پھر زمین پر پڑی پانی کی آدھی بوتل کو اٹھانے کے لیے لپکی اور غٹا غٹ پی گئی۔
"ہم محصور ہو گئے تھے ۔۔۔ ہم گندہ پانی پیتے رہے ہیں۔"
قریب ہی، سینکڑوں مرد جنہوں نے چھوٹے قلعے کو چھوڑ جانے کا انتخاب کیا تھا کسل مندی کے ساتھ قطار میں کھڑے تھے جبکہ امریکہ کی زیرِ قیادت اتحاد کی پشت پناہی کی حامل ایس ڈی ایف کے جوان انہیں حراست میں لینے کے لیے کارروائی کر رہے تھے۔
پٹیوں میں لپٹے اور مٹی میں لت پت، ان میں سے کئی لاٹھیاں تھامے ہوئے، مشتبہ جنگجو -- جہادیوں کی کبھی وسیع ہوتی ہوئی اصل ریاست کی موت کے دنوں -- کی کہانی بیان کرتی ہوئی تصویر بنے ہوئے تھے۔
چار برس قبل اپنے عروج پر، داعش نے اس علاقے میں کروڑوں لوگوں پر حکمرانی کی تھی جو رقبے میں برطانیہ جتنا تھا۔
لیکن جہادیوں کو محض ایک قطعہ زمین تک محدود کر دیا گیا ہے جو عراق کے ساتھ شام کی سرحد کے قریب دریائے فرات کے ساتھ ایک خم میں دھکیل دیا گیا ہے۔
'داعش جیسی کسی چیز کا اب کوئی وجود نہیں'
ایس ڈی ایف اور امریکی قیادت میں اتحادی افواج نے اختتامِ ہفتہ پر بچے کھچے جہادیوں پر حملے لیے، جس سے پہلے انہوں نے بمباری کی ہوئی محصور جگہ سے عام شہریوں کو نکل جانے کا ایک موقع دینے کے لیے ہفتوں تک اپنے حملے روک دیئے تھے۔
لیکن کردوں کی زیرِ قیادت فوج اتوار (3 مارچ) کو دوبارہ اپنی یورش کو روکنے پر مجبور ہو گئی تھی جس کا سبب اس جگہ ابھی تک پھنسے ہوئے عام شہریوں کا خوف تھا۔
اجتماع کے مقام پر، بچے انخلاء کرنے والے سابقہ گروہوں کی جانب سے پیچھے چھوڑے ہوئے کچرے میں آنکھیں پھاڑے آوارہ گردی کر رہے تھے۔
جہادیوں کے ہمیشہ کے لیے سکڑتے ہوئے علاقے میں سے دسیوں ہزاروں عام شہریوں کو حالیہ ہفتوں میں ٹرکوں میں لاد کر لایا جاتا رہا ہے -- جس سے ایسا لگتا ہے کہ خطے اور دنیا میں خواتین اور بچوں کا یہ کبھی نہ تھمنے والا بہاؤ ہے۔
وہ لوگ جنہیں چند روز قبل حراست میں لیا گیا تھا ان کا کہنا تھا کہ وہاں ابھی بھی ہزاروں کی تعداد میں عام شہری ہیں لیکن باقی ماندہ جہادی لڑنے مرنے کی تیاری کر رہے تھے۔
الیپو، شام سے تعلق رکھنے والے 13 سالہ محمود نے انخلاء کرنے والوں سے بھرے پڑے کیمپ کی طرف جانے کے لیے تیار ایک اور لاری کی طرف لپکتے ہوئے کہا، "سب ختم ہو گیا۔"
"داعش جیسی کسی چیز کا اب کوئی وجود نہیں۔"