پناہ گزین

پاکستان افغان مہاجرین کو بینک اکاونٹ کھولنے کی اجازت دے گا

عدیل سید

نامعلوم تاریخ کی فائل فوٹو میں ایک مہاجر خاتون پشاور کے پی او آر کی تجدید کے مرکز میں، اپنا تجدید شدہ پی او آر (رجسٹریشن کا ثبوت) کارڈ وصول کر رہی ہے۔ پاکستان کی سرزمین پر تقریبا 1.4 ملین اندراج شدہ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ ]یو این سی ایچ آر پاکستان[

نامعلوم تاریخ کی فائل فوٹو میں ایک مہاجر خاتون پشاور کے پی او آر کی تجدید کے مرکز میں، اپنا تجدید شدہ پی او آر (رجسٹریشن کا ثبوت) کارڈ وصول کر رہی ہے۔ پاکستان کی سرزمین پر تقریبا 1.4 ملین اندراج شدہ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ ]یو این سی ایچ آر پاکستان[

پشاور -- پاکستان لاکھوں اندراج شدہ افغان مہاجرین کو خیرسگالی کی علامت کے طور پر بینک اکاونٹ کھولنے کی اجازت دے گا جس سے انہیں رقوم کے محفوظ اور قانونی لین دین تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے فروری کے آخیر میں ٹوئٹ کیا تھا کہ "میں نے آج ہدایات جاری کی ہیں کہ ایسے افغان مہاجرین جو اندراج شدہ ہیں اب بینک اکاونٹ کھول سکتے ہیں اور آج کے بعد سے وہ ملک کی باضابطہ معیشت میں شرکت کر سکتے ہیں۔ ایسا بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا"۔

عمران خان کے اس قدم کی بین الاقوامی تنظیموں جن میں اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) اور ایمنسٹی انٹرنیشنل شامل ہیں، نے تعریف کی ہے۔

دی نیوز انٹرنیشنل کے مطابق، ایمنسٹی انٹرنشینل ساوتھ ایشیاء نے 26 فروری کو کہا کہ "اس وقت جب تقریبا ساری دنیا نے مہاجرین کی طرف سے منہ موڑ لیا ہے، پاکستان کی حکومت نے انہیں ان کی عزت دوبارہ دینے میں مدد کرنے کے لیے ایک انتہائی اچھا قدم اٹھایا ہے"۔

اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی نے اس فیصلے کو "یک جہتی کا ایک ترقی پسندانہ اور بے لوث قدم قرار دیا جو عالمی اہمیت کا حامل ہے"۔ یہ بات انہوں نے ایک بیان میں کہی۔

انہوں نے مزید کہا کہ "میں وزیراعظم عمران خان، پاکستان کی حکومت اور لوگوں کو افغان مہاجرین کی مدد کرنے کے لیے یہ اہم قدم اٹھانے پر، خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں"۔

پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے ایک ترجمان قیصر خان آفریدی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ پاکستان 1.4 ملین سے زیادہ اندراج شدہ افغان مہاجرین کی میزبانی کرتا ہے جس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو افغانستان سے بھاگے تھے اور ان کے وہ بچے جو پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں"۔

آفریدی نے مطابق، پاکستان میں غیر اندراج شدہ افغان مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان دنیا میں مہاجرین کی میزبانی کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔

محفوظ لین دین

افغان تاجر عتیق اللہ مومن زادہ، جن کا تعلق پشاور سے ہے اور جو مومن گروپ آف انڈسٹریز کے مالک ہیں، کے مطابق پاکستان کے اس قدم کا مطلب ہے کہ اب مہاجرین کو رقوم کے لین دین کی محفوظ سہولیات تک رسائی حاصل ہو گی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ اب تک، افغان شہری "رقوم کے لین دین کے لیے غیر ضابطہ" ذرائع استعمال کر رہے تھے جو کہ ہمارے لیے غیر محفوظ تھے اور اب ہم سیکورٹی کی وجوہات کی بنیاد پر بینکوں کا انتخاب کریں گے۔ تمام افغان مہاجرین اس فیصلے پر انتہائی خوش ہیں اور اسے بہت خوش آئند سمجھ رہے ہیں"۔

زادہ نے کہا کہ خان نے اس قدم سے افغان مہاجرین کے دل جیت لیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس قدم سے امید پیدا ہو گئی ہے کہ جلد ہی مہاجرین اپنے نام سے گاڑیاں خریدنے کے قابل ہو جائیں گے۔

پاکستان میں افغان مہاجرین کو کاروبار کرتے ہوئے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ اس سے پہلے ان پر لین دین کے لیے باضابطہ بینک کے طریقوں کو استعمال کرنے پر پابندی تھی۔ اس کی بجائے وہ ایک نظام جسے "ہنڈی" کہا جاتا ہے پر انحصار کرتے تھے جو کہ رقوم کے لین دین کا ایک غیر سرکاری طریقہ ہے۔ یہ بات پاکستان افغانستان مشترکہ ایوانِ صنعت و تجارت کی خیبر پختونخواہ شاخ کے ڈائریکٹر نعمان الحق نے پاکستان فارورڈ کو بتائی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں افغان تاجروں کو اپنے مقامی ملازمین کے نام کو استعمال کرتے ہوئے بینکاری کرنی پڑتی تھی اور وہ اپنے تحفظ کے لیے بڑے لین دین سے اجتناب کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اب، دنیا بھر میں رہنے والے افغان شہریوں کی بڑی تعداد، پاکستان میں رہنے والے اپنے خاندانوں کو بینک کے ذریعے رقم بھیج سکے گی۔

نعمان نے کہا کہ یہ قدم "بہت اچھا فیصلہ" ہے اور اس سے نہ صرف افغان مہاجرین کو کاروبار کرنے میں سہولت ملے گی بلکہ "انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے سے ملک میں ٹیکس اکٹھا کرنے میں بھی اضافہ ہو گا"۔

افغانستان کو سیمنٹ برآمد کرنے والے ایک پاکستانی تاجر شاہد حسین نے کہا کہ "یہ فیصلہ ان لوگوں کی طرف سے ایک درینہ مطالبہ تھا جو افغان مہاجرین کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں"۔

حسین جو کہ پشاور میں قائم سرحد ایوانِ صنعت و تجارت کے ایک ایگزیکٹیو ممبر بھی ہیں، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ موجودہ حکومت نے افغانستان کے ساتھ تجارت بہتر کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں جن میں حکومت کی طرف سے طورخم کی بارڈر کراسنگ کو ہر وقت کھلا رکھنا بھی شامل ہے۔

شاہد نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان میں تجارت کے بہت سے امکانات ہیں اور ایسے فیصلوں سے دونوں ممالک کی آبادی کو فائدہ پہنچے گا اور علاقے میں خوشحالی آئے گی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500