سلامتی

افغان طالبان اور داعش دونوں کی طرف سے جاسوس استعمال کیے جانے سے لڑائی میں شدت

خالد زرئی

داعش کے ارکان گزشتہ سال کنڑ صوبہ میں طالبان کے ٹھکانوں پر فائرنگ کر رہے ہیں۔] فائل[

داعش کے ارکان گزشتہ سال کنڑ صوبہ میں طالبان کے ٹھکانوں پر فائرنگ کر رہے ہیں۔] فائل[

کنڑ، افغانستان -- فوجی حکام کا کہنا ہے کہ مشرقی افغانستان میں، طالبان اور دولتِ اسلامیہ (داعش) کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں حالیہ مہینوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور اس کی ایک وجہ وہ جاسوس ہیں جو دونوں گروہوں میں گھس آئے ہیں۔

ننگرہار صوبہ میں داعش پر حکومتی کریک ڈاون نے دہشت گرد گروہ کے باقی بچ جانے والے جنگجوؤں کو ہمسایہ صوبہ کنڑ کی طرف بھاگ جانے پر مجبور کیا جس سے ان کا طالبان سے تنازعہ شروع ہو گیا۔

افغان نیشنل آرمی (اے این اے) کی 201 ویں سیلاب کور کے ایک ترجمان کیپٹن ہارون یوسف زئی نے کہا کہ "سچ تو یہ ہے کہ داعش میں شامل ہونے والے جنگجوؤں میں سے اکثریت سابقہ طالبان کی ہے اور طالبان کے کچھ ایسے جنگجو ہیں جن کے داعش کے ساتھ تعلقات ہیں"۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے ایک دوسرے کے گروہوں میں جاسوس ہیں"۔

افغان نیشنل آرمی کے کمانڈو یکم ستمبر کو کنڑ صوبہ کی سوکی ڈسٹرکٹ میں دیواگل وادی میں ایک کلیرنس آپریشن کے دوران عسکریت پسندوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ]خالد زرئی[

افغان نیشنل آرمی کے کمانڈو یکم ستمبر کو کنڑ صوبہ کی سوکی ڈسٹرکٹ میں دیواگل وادی میں ایک کلیرنس آپریشن کے دوران عسکریت پسندوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ]خالد زرئی[

انہوں نے کہا کہ "میری اطلاعات کے مطابق، دونوں گروہ جاسوسوں کی دراندازی کے باعث ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ داعش کے کمانڈروں نے ایسے بہت سے افراد کو ہلاک کر دیا جن کے بارے میں انہیں شک تھا کہ وہ طالبان کے لیے ان کی جاسوسی کر رہے ہیں"۔

بدلتی ہوئی وفاداریاں

کنڑ صوبائی گورنر کے ایک ترجمان غنی مصمم نے کہا کہ "داعش اور طالبان جنوری کے آغاز سے منوگی ڈسٹرکٹ میں ایک دوسرے کے ساتھ وقفے وقفے سے لڑتے رہے ہیں"۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "جب سے لڑائی شروع ہوئی ہے دونوں فریقین کے تقریبا 50 افراد مارے گئے ہیں جن میں سے 30 داعش کے لڑاکے تھے۔ داعش نے ایسے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے جہاں طالبان سرگرم تھے جیسے کہ کورنگال درہ، شوریک اور عمر خوار"۔

مصمم نے کہا کہ "ان دونوں گروہوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اس سے پہلے جو طالبان کے ساتھ تھے، اب وہ داعش کے لیے لڑ رہے ہیں اور جو داعش میں تھے اب وہ طالبان میں شامل ہو چکے ہیں"۔

ایک عسکری کمانڈر نجم الدین، جو کہ اپنی ہلاکت سے پہلے دونوں گروہوں میں وقت گزار چکے تھے، اس کی ایک مثال ہیں۔

مصمم نے کہا کہ "نجم الدین سابقہ داعش جنگجو تھے مگر حال ہی میں وہ طالبان میں شامل ہو گئے تھے"۔

مقامی شہریوں کے مطابق، اس وجہ سے نجم الدین ایک ہدف تھے۔

منوگی ڈسٹرکٹ کے علاقے ننگلم کے ایک شہری عنایت اللہ نے کہا کہ "کمانڈر نجم الدین کے بارے میں علاقے میں شبہات تھے کہ آیا وہ داعش کا کارندہ ہے مگر حقیقت میں وہ طالبان کا رکن تھا"۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "داعش کے کچھ کمانڈر علاقے میں خفیہ طور پر مارے گئے اور مقامی افراد کا خیال ہے کہ نجم الدین نے طالبان کے لیے جاسوسی کرنے کے لیے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی"۔

عنایت اللہ نے کہا کہ "جب نجم الدین کو صورت حال کا پتہ چلا تو وہ واپس طالبان میں شامل ہو گیا۔ اس کے داعش کے ساتھ پھر بھی تعلقات تھے مگر اسے ڈر تھا کہ داعش اسے ہلاک کر دے گی"۔

انہوں نے کہا کہ "داعش اور طالبان دونوں میں ہی اتنے زیادہ جاسوس ہیں کہ کوئی بھی گروہ اپنے دوستوں پر اعتماد نہیں کر سکتا"۔

مصمم کے مطابق، مگر نجم الدین کا انجام عسکریت پسندوں کے ہاتھوں نہیں ہوا بلکہ افغان اسپیشل فورسز کی طرف سے منوگی ڈسٹرکٹ میں غلق لام کے علاقے میں فضائی اور زمینی آپریشن میں ہوا۔

وہ اور اس کے تین کمانڈر 28 جنوری کو ہلاک ہو گئے۔

ایک مقامی شہری نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر سلام ٹائمز کو بتایا کہ "نجم الدین داعش کا کمانڈر تھا اور وہ جاسوسی کرنے کے الزام میں مقامی شہریوں کو ہلاک کرتا تھا اور اب وہ خود مارا گیا ہے"۔

شہریوں کو بے گھر کرنا

منوگی ڈسٹرکٹ میں طالبان اور داعش کے جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں نے شہریوں کو علاقہ چھوڑ کر محفوظ علاقوں کی طرف چلے جانے پر مجبور کیا ہے۔

مصمم کے مطابق، گزشتہ چند ماہ کے دوران، تقریبا 600 خاندان داعش اور طالبان کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے باعث علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

کورنگل علاقہ کے شہری، 32 سالہ عبدل قدیر نے کہا کہ "میں فرار ہو گیا اور اب میں اسد آباد شہر میں رہتا ہوں مگر میرے خاندان کے اکثر لوگ محاصرے میں ہیں"۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "داعش کے جنگجو انہیں علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ انہیں کسی بھی وقت ہلاک کیا جا سکتا ہے"۔

منوگی ڈسٹرکٹ کے علاقے ننگالم سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ فقیر محمد نے بھی کہا کہ داعش نے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ کسی کو جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "طالبان ان سے لڑنے کا منصوبہ رکھتے ہیں مگر مقامی شہری یقینی طور پر ہلاک ہوں گے۔ ان کا شہریوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ کوئی مقصد نہیں ہے"۔

مدد آ رہی ہے

کنڑ صوبائی کونسل کے ایک رکن محمد صافی نے کہا کہ "بے گھر ہو جانے والے افراد برے حالات میں رہتے ہیں اور افغان حکومت کو ان کا خیال کرنے کی ضرورت ہے"۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "ان کے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور وہ باقاعدگی سے خوراک حاصل نہیں کر سکتے"۔

حال ہی میں منوگی ڈسٹرکٹ سے فرار ہو کر وٹاپور ڈسٹرکی کے گاوں سمتم آنے والے 50 سالہ عنضر گل نے صورت حال کے بارے میں صافی کے تجزیے کی تصدیق کی۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "ہم اپنا سارا ساز و سامان گھر پر چھوڑ آئے ہیں اور یہاں پر صرف اپنی زندگیاں بچا کر پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم ایک وقت کا کھانا بھی خرید نہیں سکتے۔ ہمارے ہمسایے ہمیں کھانا دیتے ہیں اور ہم عارضی جھونپڑیوں میں بغیر چھت کے سوتے ہیں"۔

کنڑ صوبہ کے مہاجرین اور وطن واپسی کے قعبہ کے ڈائریکٹر شفیق اللہ مہمند نے وعدہ کیا کہ مدد آ رہی ہے۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "ہم نے ماضی میں ایسے خاندانوں میں امداد تقسیم کی ہے جو طالبان اور داعش کے درمیان لڑائی کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑ گئے تھے اور ہم ان خاندانوں کی شناخت کر رہے ہیں جو حال ہی میں منوگی ڈسٹرکٹ میں شروع ہونے والی لڑائی کے باعث یہاں پر آئے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم جلد ہی ان میں کھانا اور پناہ گاہوں کی تقسیم شروع کر دیں گے"۔

'طاقت ور مہمات' داعش اور طالبان کو شکست دیں گی

منوگی اور چپا ڈیرہ کے اضلاع میں طالبان اور داعش کے درمیان لڑائی سب سے پہلے تقریبا ایک سال پہلے شروع ہوئی مگر افغان نیشنل ڈیفنس اور سیکورٹی فورسز نے دونوں گروہوں کے خلاف فوری طور پر آپریشن شروع کر دیا۔

کنڑ پولیس کے سربراہ جنرل حق نواز حق یار نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "داعش کے دہشت گرد گروہ نے آغاز میں بہت طاقت حاصل کر لی تھی اور وہ مقامی آبادی کو ڈرا دھماکا رہے تھے مگر جب سیکورٹی فورسز نے ان کا تعاقب کیا تو یہ بات ثابت ہو گئی کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم نے ان کے خلاف آپریشن شروع کیے اور جہاں بھی وہ ملے ہم نے انہیں مارا"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "طالبان کا گروہ بھی ماضی میں زیادہ مضبوط تھا مگر اب وہ لڑائی نہیں کر سکتا"۔

حق یار نے کہا کہ "ایک اور بڑی بات یہ ہے کہ اب وہ ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں-- طالبان داعش پر حملہ کرتے ہیں اور داعش طالبان پر حملہ کرتی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "یہ بات واضح ہے کہ وہ ایک دوسرے کی صفوں میں گھس گئے ہیں اور ہم نے ایسے واقعات دیکھے ہیں جن میں داعش کے ارکان نے اپنے ساتھیوں اور طالبان نے اپنے ہی ساتھیوں کو ہلاک کیا ہے"۔

"اس کا مطلب ہے کہ دونوں اطراف سے ایسے افراد موجود ہیں جو دوسرے گروہ میں گھس آئے ہیں"۔

کنڑ میں اے این اے کی سیکنڈ انفنٹری ڈویژن کے کمانڈر برگیڈیر جنرل میروائس سپی نے کہا کہ "ہم نے داعش اور طالبان کے دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لیے پہلے ہی بروقت آپریشن شروع کر دیا ہے اور ہم اس مہم کو جاری رکھیں گے"۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "ہم نے نورگل ڈسٹرکٹ کے علاقے مزار ڈیرہ، چاوکی ڈسٹرکٹ کے علاقے دیواگل ڈیرہ اور منوگی اور چپا ڈیرہ کے اضلاع کے حصوں میں بہت سی مہمات انجام دی ہیں اور اب داعش کی طرف سے خطرہ اتنا زیادہ نہیں ہے جتنا کہ ماضی میں ہوتا تھا"۔

انہوں نے داعش کا ایک اور نام استعمال کرتے ہوئے کہا کہ "ہم منوگی اور چپا ڈیرہ کے اضلاع میں طالبان اور داعش کے لڑاکوں کے خلاف جلد ہی ایک زبردست مہم شروع کریں گے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500