اسلام آباد -- پاکستان کے نئے چیف جسٹس نے جمعہ (18 جنوری) کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا، جس میں انہوں نے سپریم کورٹ میں اصلاح کا عہد کیا جس کے متنازعہ فیصلوں میں ایک وزیرِ اعظم کو نااہل کرنااور توہینِ رسالت کی ملزمہ ایک عیسائی خاتون کو بری کرناشامل ہیں۔
64 سالہ آصف سعید خان کھوسہ ایوانِ صدر اسلام آباد میں ٹیلی وژن پر نشر ہونے والی ایک تقریب کے بعد پاکستان کے 26 ویں چیف جسٹس بنے ہیں جس میں جج کو معززین کی بھیڑ میں حلف اٹھاتے دکھایا گیا۔
کھوسہ نے کہا، "'میں بغیر کسی خوف یا رعایت کے ہر قسم کے لوگوں کے لیے قانون کے مطابق درست کام کروں گا۔"
فوجداری قانون میں پاکستان کے چوٹی کے ماہرین کی درجہ بندی میں آنے والے، کھوسہ اپنے قانونی فیصلوں میں ادبی فن پاروں کا حوالہ دینے کی عادت کی وجہ سے "شاعرانہ جسٹس" کے طور پر بھی معروف ہیں۔
پچھلے سال، کھوسہ سپریم کورڈ کے اس پینل کے رکن تھے جس نےتوہنِ رسالت کے الزم میں جیل جانے والی عیسائی خاتون کی سزائے موتکو ختم کیا تھا، جس کے نتیجے میں اسلامی انتہاپسندوں کی جانب سے کئی روز تک پرتشدد مظاہرے ہوتے رہے تھے۔
وہ ان ججوں میں بھی شامل تھے جنہوں نے نواز شریف کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے جواب میں سنہ 2017 میںسابق وزیرِ اعظم نواز شریفکو سیاست سے تاحیات نااہل کیا تھا۔
اپنے فیصلے میں،کھوسہ نے ماریو پوزو کے 1969 کے ناول "دی گاڈ فادر" سے بلیزک کے مقولے کا حوالہ دیا تھا، جس کے مطابق" "ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے۔"
اختیارات کی علیحدگی
اپنے پیش رو، میاں ثاقب نثار، کو الوداع کہتے ہوئے، اپنے شاعرانہ حوالوں سے گریز کرتے ہوئے، کھوسہ نے عدالتی شاخ میں اہم اصلاحات لانے کا عہد کیا۔
ثاقب نثار پر قانونی برادری اور سیاستدانوں کی جانب سے ان کے سوموٹو اختیارات کے بھرپور استعمال کی وجہ سے بہت زیادہ تنقید کی جاتی تھی -- جو پاکستان کے قانونی نظام میں ایک ایسا آلہ ہے جو ایک جج کو مفادِ عامہ کے کسی بھی مسئلے کا نوٹس لینے کی اجازت دیتا ہے۔
ایسے اختیارات کے پردے میں کام کرتے ہوئے، نثار اچانک معائنے کرنے، جو کہ اکثر ان کے کام سے غیر متعلقہ ہوتے تھے، اور معروف طور پر ڈیموں کی تعمیر کے لیے عوام سے چندہ اکٹھا کرنے کی بہت بڑی مہم شروع کرنے کے لیے مشہور تھے۔
چند ناقدین کی جانب سے ان پر عدلیہ اور مقننہ کے اختیارات کے درمیان لکیر کو مٹانے کا بھی الزام لگایا گیا۔
جمعرات (17 جنوری) کے روز، کھوسہ نے ایسی تشویشوں کو حل کرنے اور عدلیہ کو اس کے آئین میں دیئے گئے کردار میں لانے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا، "آئیے عدلیہ کی جانب سے انتظامی حلقے میں مبینہ دخل اندازی پر مباحثہ کریں ۔۔۔ اور اس بات پر بھی کہ عدلیہ بہترین طریقے سے کیسے اپنے معمول کے لیکن مؤثر عدالتی کردار میں واپس لوٹ سکتی ہے۔"
انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ سوموٹو نوٹسز کو "انتہائی احتیاط" سے استعمال کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ بار کے سابق صدر، اکرم شیخ نےاس بیان کو "بہت خوش آئند علامت" کے طور پر سراہا۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ "نئے چیف جسٹس کی جانب سے عدلیہ اور مقننہ کے اختیارات کی علیحدگی طاقت کی دو اجزاء میں تقسیم کو یقینی بنائے گی اور جمہوریت کو مضبوط کرے گی۔"
ایک 'عملی' آدمی
پاکستان کی عدلیہ اس وقت ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی اور مقدمات کے وسیع ہوتے ہوئے بوجھ کا مقابلہ کرنے کی استعداد میں کمی کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں بہت بڑی رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔
کھوسہ کے مطابق، ملک کی عدالتوں میں 1.9 ملین مقدمات زیرِ التوا ہیں، جن کو نمٹانے کے لیے صرف 3،000 جج ہیں۔
پشاور کے مقامی ٹیلی وژن کے ایک سینیئر صحافی، طارق وحید نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "وہ ایک زیادہ عملی انسان ہیں اور چیف جسٹس کے بارے میں یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ وہ اپنے فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں۔"
وحید نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں کھوسہ کے ماتحت سابقہ قبائلی علاقہ جات میں عدالتی نظام کے قیام کے تیزی سے آگے بڑھنے کا بھی امکان ہے۔سابقہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات کا حوالہ دیتے ہوئے،انہوں نے کہا، "وہ اس بینچ کا حصہ تھے جس نے حال ہی میں فاٹا کے متعلق فیصلہ دیا تھا۔"
"وہ یقینی بنائیں گے کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح، فاٹا کے لوگوں کو بھی موزوں عدالتی نظام کے ذریعے انصاف ملے،" انہوں نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ آنے والے مہینوں میں قبائلی علاقوں میں یہ نظام کام کرنا اور انصاف فراہم کرنا شروع کر دے گا۔
[پشاور سے جاوید خان نے اس رپورٹ میں حصہ لیا۔]