مذہب

القاعدہ کی طرف سے داعش اور اس کے 'گمراہ' خلیفہ البغدادی کی تباہی کا مطالبہ

سلام ٹائمز

القاعدہ کے اس بیان کی سرورق کی تصویر دکھائی گئی ہے جس میں "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ بیان 29 دسمبر کو جاری کیا گیا تھا۔ ]فائل[

القاعدہ کے اس بیان کی سرورق کی تصویر دکھائی گئی ہے جس میں "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ بیان 29 دسمبر کو جاری کیا گیا تھا۔ ]فائل[

القاعدہ نے "دولتِ اسلامیہ" (داعش) اور اس کے راہنما ابوبکر البغدادی کے خلاف حیران کن تنبیہ جاری کی ہے اور ہر جگہ کے مسلمانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس گروہ کو تباہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

یہ بیان جو کہ القاعدہ کی بیان فاونڈیشن فار میڈیا پروڈکشن کی طرف سے 29 دسمبر کو شائع کیا گیا، میں داعش کی تباہی اور اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے کہ اس گروہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

بیان کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ "اور آج، ان کے اثر و رسوخ کے کم ہو جانے اور سرزمینِ شام میں ان کی طرف سے درپیش خطرے کے ختم ہو جانے کے بعد، انہوں نے مختلف جگہوں پر اپنی شاخیں بنا لی ہیں جہاں وہ مجاہدین کے لیے مصائب اور تباہی اور زمین اور اس کے لوگوں کے لیے مزید بدعنوانی اور جرائم لے کر آئے ہیں"۔

"یہ گروہ (دنیا کے دوسرے حصوں) میں مشکوک غیر ملکی مفادات کے لیے، بغاوت، سرکشی اور جبری محکومی ایک بار پھر ابھر رہا ہے اور بین الاقوامی انٹیلیجنس سروسز کے ایجنٹ اور ان کے ملازم ہونے کی علامات ظاہر کر رہا ہے"۔

داعش کی ویڈیو سے لیا گیا اسکرین شاٹ جس میں اس کے ارکان کو مشرقی افریقہ میں دکھایا گیا ہے جہاں گروہ، اپنی خلافت کے عراق اور شام میں خاتمے کے بعد، پھیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ]فائل[

داعش کی ویڈیو سے لیا گیا اسکرین شاٹ جس میں اس کے ارکان کو مشرقی افریقہ میں دکھایا گیا ہے جہاں گروہ، اپنی خلافت کے عراق اور شام میں خاتمے کے بعد، پھیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ]فائل[

القاعدہ سے منسلک تحریر ال -شام کے ارکان، 14 نومبر 2018 کو ادلیب، شام میں ہتھیاروں کی تربیت کے دوران۔ ]فائل[

القاعدہ سے منسلک تحریر ال -شام کے ارکان، 14 نومبر 2018 کو ادلیب، شام میں ہتھیاروں کی تربیت کے دوران۔ ]فائل[

داعش کے ارکان 2018 میں مشرقی شام میں امریکی حمایت یافتہ لڑاکوں سے جنگ کر رہے ہیں۔ داعش اپنی خلافت کا 99 فیصد حصہ کھو چکی ہے جو کبھی عراق اور شام میں وسیع علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ ]فائل[

داعش کے ارکان 2018 میں مشرقی شام میں امریکی حمایت یافتہ لڑاکوں سے جنگ کر رہے ہیں۔ داعش اپنی خلافت کا 99 فیصد حصہ کھو چکی ہے جو کبھی عراق اور شام میں وسیع علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ ]فائل[

بیان میں کہا گیا ہے کہ "انہوں نے فتنہ انگیزی کو بونا، الزمات لگانا اور عہدوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا ہے"۔

"جنگ اپنے انجام کے قریب ہے۔"

القاعدہ کی منافقت

القاعدہ کی طرف سے اپنے آپ کو القاعدہ سے الگ کرنے کے لیے خود کو اخلاقی طور پر زیادہ بلند ثابت کرنے کی مسلسل کوششیں انتہائی منافقانہ ہیں۔

القاعدہ کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک، اس تنظیم نے اپنے آپ کو اسلام کی ایک غلط تشریح میں لپیٹ رکھا ہے تاکہ وہ دنیا بھر میں بے گناہوں کے قتل کو جائز ثابت کر سکے۔

القاعدہ کی طرف سے 1998 میں کینیا اور تنزانیہ میں سفارت خانوں میں بم دھماکوں سے سینکڑوں عام شہریوں کی ہلاکت سے لے کر11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہزاروں افراد کی ہلاکت تک، القاعدہ کا بنیادی مقصد سالہا سال سے خون بہانا ہی رہا ہے۔

مشرقِ وسطی میں القاعدہ نے ان گنت خودکش دھماکوں اور قتل کے واقعات کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ خصوصی طور پر عراق اور یمن میں، القاعدہ فرقہ ورانہ کشیدگی و عدم استحکام، اسکولوں، مساجد اور حکومتی عمارات میں بم دھماکوں کی بنیادی وجہ رہی ہے۔ بعض اوقات اس نے جان بوجھ کر خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا ہے۔

آج، شام میں القاعدہ کی شاخ تحریر الشام اس خونی روایت کو جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ تنظیم کی طرف سے تشدد، خودکش دھماکوں اور فوری پھانسیوں کی استعمال کی کہانیاں سامنے آتی رہتی ہیں۔

داعش کی "خلافت" بکھر رہی ہے

داعش اپنی اس نام نہاد "خلافت" کے تقریبا 99 فیصد سرحد پار علاقے سے محروم ہو چکی ہے، جس کا اعلان البغدادی نے 2014 میں عراق اور شام میں کیا تھا۔

دہشت گرد گروہ کی طرف سے ریاست قائم کرنے کے خواب اس وقت بکھر گئے جب داعش کا موصل، عراق سے جولائی 2017 میں اور پھر اس کے نام نہاد دارالحکومت، الرقہ، شام سے گزشتہ اکتوبر میں خاتمہ کر دیا گیا۔

ان بڑی شکستوں کے بعد، داعش کے جنگجو شام کے صحرائی علاقوں کی طرف پسپا ہو گئے ہیں اور وہ کسی بھی علاقے پر دعوی نہ رکھنے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

اگرچہ داعش سے منسلک گروہوں کی کچھ شاخیں، افریقہ میں ابھر آئی ہیں جن میں سے صومالیہ اور نائجیریا قابلِ ذکر ہیں، البغدادی نے داعش کے میڈیا آپریشنز کی طرف سے 22 اگست کو جاری کیے جانے والے 55 منٹ کے بیان میں خود کہا کہ داعش مشرقِ وسطی میں اپنی عسکری ناکامیوں سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔

گروہ کی بظاہر زمین پر دکھائی دی جانے والی شکست کی نشانی میں، البغدادی نے اعلان کیا کہ "مجاہدین کے لیے فتح یا شکست کا پیمانہ کسی شہر یا قصبے کے چرائے جانے یا فضائی برتری رکھنے والوں پر منحصر نہیں ہے"۔

انہوں نے گروہ کی باقیات میں ابھرنے والی نظم وضبط کی کمی کے بارے میں بھی بات کی اور اپنے نائبین کو متنبہ کیا کہ وہ اپنے آدمیوں میں بغاوت کی علامات پر نظر رکھیں۔انہوں نے مختلف شہریت، علاقہ اور قومیت رکھنے والے داعش کے ارکان پر زور دیا کہ وہ آپس میں لڑائی اور جھگڑوں سے باز رہیں۔

انہوں نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ وہ اپنے "مذہب، صبر یا جہاد" کو نہ چھوڑیں۔

"متن سمجھنے میں ناکام ہیں"

القاعدہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ داعش اور ان کا "دھوکے باز اور سرکش خلیفہ" البغدادی "واضح طور پر جان بوجھ کر اسلام کو تباہ" کر رہے ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ "دھوکے باز البغدادی گروہ کے ارکان کے دل بند ہیں اور وہ متن کو صیح طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کے دماغ جہالت سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کی روحیں غرور اور ڈھٹائی میں لپٹی ہوئی ہیں"۔

"اس لیے، ان دھوکے بازوں کے ساتھ جو واحد کام کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے استبداد کو روکنے اور ان کی جڑیں اکھاڑنے سے، ان کے خلاف اللہ کی منشا کو پورا کیا جائے"۔

بیان میں زور دیا گیا ہے کہ "اس دھوکے باز گروہ کے خلاف کھڑے ہو جائیں، ان پر کوئی رحم یا ہمدردی نہ کی جائے۔ ہمیں علم ہو گیا ہے کہ ان کا نہ تو کوئی مذہب ہے اور نہ ہی اخلاق اور ان کے کردار میں اخلاقی طور پر خرابی موجود ہے"۔

داعش کے خاتمے کے قریب آ جانے کے ساتھ "انہوں نے عہدوں کو نقصان پہنچانے کے لیے سازشوں کا سہارا لینا شروع کیا ہے اور ایسا کرنے میں کامیاب بھی رہے ہیں"۔

ایک سازشی نظریہ یہ ہے کہ داعش اور انتہاپسند گروہ مغربی ممالک اور خصوصی طور پر امریکہ کے پیدا کردہ ہیں۔

اگرچہ اس نظریے کو مسلمان دنیا میں کافی زیادہ حمایت حاصل ہے، بہت سے علماء، دیگر تجزیہ نگاروں اور مذہبی شخصیات کا کہنا ہے کہ ایسے نظریات جھوٹ ہیں جنہیں زمینی حقائق کو مسخ کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے۔

مسلمانوں کے خلاف داعش کے مظالم

داعش نے مسلسل نمازیوں کو نماز کے دوران قتل کیا اور مسجدوں میں بم دھماکے کیے ہیں، خواتین اور بچوں کو مارا ہے، شہری عمارات کو جلایا اور اسکولوں پر حملے کیے ہیں۔

القاعدہ کی طرف سے داعش کے ساتھ وفادر رہنے والوں کے خلاف سخت الفاظ اس وقت سامنے آئے ہیں جب داعش کی طرف سےاسلام کے نام پر کیے جانے والے مظالم,کے خلاف آگاہی بڑھی ہے جس کے باعث گروہ کے اندر اور اس کی صفوں کے درمیان لڑائی شروع ہوئی، جو افغانستان میں زیادہ واضح ہے۔

داعش کے ایک سابقہ رکن نے، جس نے حال ہی میں ننگرہار صوبہ میں ہتھیار ڈالے، افغانستان میں گروہ کی کچھ اندرونی طریقہ ہائے کار کے بارے میں بتایا۔

حیرت خان جن کی عمر 55 سال ہے اور جنہوں نے داعش کے ساتھ مل کر دو سال تک لڑائی کی، کہا کہ "ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ ایک اسلامی خلافت ہے مگر ہمیں بعد میں احساس ہوا کہ وہ سب غیر ملکی ہیں اور یہ ایک الگ ہی کھیل ہے"۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "وہ ہمارے بزرگوں کو مارتے اور ہمارے بچوں کو ذبح کرتے تھے۔ ہم نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر ہم انہیں کچھ نہیں بتا سکتے تھے کیونکہ اگر ہم ایسا کرتے تو وہ ہمیں بھی ہلاک کر دیتے۔ اس وجہ سے ہم خاموش رہے"۔

درزب، صوبہ جواز جان سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی بزرگ باز محمد داور نے کہا کہ "بچوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ، داعش کے عسکریت پسند شہریوں کے سامان کو چرانے، عصمت دری کرنے، شہریوں کو ڈرانے اور اسکولوں کی عمارتوں کو آگ لگانے میں بھی ملوث تھے"۔

انہوں نے کہا کہ "داعش کے چار لڑاکوں نے 19 سالہ لڑکی کو جس کی منگنی ہو چکی تھی اس کے گھر سے پکڑ لیا اور اسے داعش کے ٹھکانے پر لے گئے اور داعش کے پورے گروہ نے چار ہفتوں تک اس کی عصمت دری کی"۔

داعش کو تباہ کرنے کے لیے مسلمانوں سے آخری مطالبہ

داعش اسلامی تعلیمات، بنیادی اخلاقیات اور ان لوگوں کی مقامی ثقافت کو پامال کرتی رہی ہے جن کی نمائںدگی کرنے کا وہ دعوی کرتی ہے۔

القاعدہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ "البغدادی گروہ جس چیز کی نمائندگی کرتا ہے وہ ایسا زہریلا خنجر ہے جو آپ کو آپ کے مقصد سے روکنے اور جو آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس میں رکاوٹ کا کام کرتا ہے"۔

"اس لیے، بہانوں، جوابات کے انتظار اور دستور سے آگاہ رہتے ہوئے ان کے خلاف ایک شخص کے طور پر کھڑے ہو جاؤ، ان کے جتھوں کا تعاقب کرو، ان کی باقیات پر قبضہ کر لو، ان کی صفوں کو چیر دو اور ان کے خلاف مورچے باندھ لو"۔

اس میں کہا گیا ہے کہ "سازشی البغدادی گروہ اپنے دلوں میں جہاد اور مجاہدین کے خلاف سخت نفرت رکھتا ہے اور ہمیشہ یہ سمجھتا ہے کہ سچ پر صرف ان کا قبضہ ہے۔ تاہم، ان کے سب نعرے جھوٹے ہیں اور انہوں نے اپنا مذہب اسلام نہیں پھیلایا، انہوں نے اپنی خلافت قائم نہیں کی، مسلمانوں کے خون اور آبرو کی حفاظت نہیں کی"۔

اس میں کہا گیا ہے کہ "ان کی برائی سے کوئی مسلمان نہیں بچ سکا ہے۔ انہوں نے مجاہدین کے خلاف اپنی تلواریں فوری طور پر نکال لیں مگر وہ کفار کے خلاف شاذ و نادر ہی ایسا کرتے ہیں۔ انہوں نے نہ تو اسلام پھیلایا ہے اور نہ ہی دشمن کو شکست دی ہے"۔

"اس لیے جلدی کرو اور عملی قدم اٹھاؤ، توحید اور جہاد کے اے بھائیو!"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

هاں یہ باتیں هم شعیه بہت پہلے بتا چکے تھے ۔۔شام و عراق میں داعش کو هم نے رسوا و شکست دیا ۔۔اور ان کى حقیقت دنیا کو دیکھا دیا

جواب