سفارتکاری

افغان امن وفد کا پاکستان کا 4 روزہ دورہ اختتام پذیر

از ضیاء الرحمان

افغان صدر اشرف غنی کے خصوصی ایلچی برائے علاقائی امور و امن، محمد عمر داؤدزئی (دائیں)، جنہوں نے 8 تا 11 جنوری کو پاکستان میں ایک وفد کی قیادت کی، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق (داؤدزئی سے آگے) سے 10 جنوری کو مشاورت کرتے ہوئے۔ [جماعت اسلامی پاکستان/ٹوئٹر]

افغان صدر اشرف غنی کے خصوصی ایلچی برائے علاقائی امور و امن، محمد عمر داؤدزئی (دائیں)، جنہوں نے 8 تا 11 جنوری کو پاکستان میں ایک وفد کی قیادت کی، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق (داؤدزئی سے آگے) سے 10 جنوری کو مشاورت کرتے ہوئے۔ [جماعت اسلامی پاکستان/ٹوئٹر]

اسلام آباد -- افغانستان اور پاکستان طالبان کے ساتھ افغانستان کی 17 سالہ جنگ کا سیاسی تصفیہ تلاش کرنے کے لیے تعاون کو مضبوط کرتے نظر آتے ہیں، جبکہ دوسری جانب دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کو کم کر رہے ہیں۔

8 تا 11 جنوری کو افغان صدر اشرف غنی کے نئے خصوصی ایلچی برائے علاقائی امور و امن، محمد عمر داؤدزئی نے پاکستان میں ایک چار رکنی وفد کی قیادت کی۔

وفد میں پاکستان میں تعینات نئے افغان سفیر عاطف مشال اور ہائی پیس کونسل (ایچ پی سی) کے ارکان شامل تھے۔

چار روزہ دورے کے دوران، داؤدزئی کے وفد نے پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگر بارسوخ دینی اور سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کیں۔

افغان وفد عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی قیادت سے چارسدہ، خیبرپختونخوا میں 9 جنوری کو امن پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے۔

افغان وفد عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی قیادت سے چارسدہ، خیبرپختونخوا میں 9 جنوری کو امن پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے۔

صدر اشرف غنی کے خصوصی ایلچی برائے علاقائی امر و امن، محمد عمر داؤدزئی (دائیں)، اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ (درمیان میں) 10 جنوری کو اسلام آباد میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے امکان پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے۔ [افغان ہائی پیس کونسل/فیس بُک]

صدر اشرف غنی کے خصوصی ایلچی برائے علاقائی امر و امن، محمد عمر داؤدزئی (دائیں)، اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ (درمیان میں) 10 جنوری کو اسلام آباد میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے امکان پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے۔ [افغان ہائی پیس کونسل/فیس بُک]

پاکستان میں ایک انگریزی اخبار، نیوز انٹرنیشنل کے مطابق، قریشی نے مہمان وفد کو بتایا، "افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے اپنے قومی مفاد میں ہے اور خطے میں معاشی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔"

داؤدزئی، جنہوں نے دسمبر میں بطور خصوصی ایلچی اپنی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں، ایچ پی سی سیکریٹریٹ کے سربراہ بھی ہیں۔ ماضی میں وہ دو بار سابق صدر حامد کرزئی کے لیے چیف آف اسٹاف کی خدمات انجام دے چکے ہیں، نیز وزیرِ داخلہ اور پاکستان اور ایران میں سفیر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

توقع ہے کہ داؤدزئی خطے کے دیگر ممالک کا بھی دورہ کریں گے کیونکہ افغانستان امن کے لیے کوششوں کو تیز کر رہا ہے۔

2019: 'افغانستان کے لیے امن کا سال'

مبصرین کا کہنا ہے کہ داؤدزئی کا دورہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان تنازعے کا گفت و شنید کے ذریعے تصفیہ تلاش کرنے میں پاکستان کی اہمیت کے اعتراف کی نمائندگی کرتا ہے۔

داؤدزئی نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی حکومت اور دفاعی ادارے افغانستان میں امن لانے کے حوالے سے متفق ہیں، جو امن مذاکرات کے انعقاد کے لیے ایک موزوں ماحول کی پیشکش کرتا ہے۔

انہوں نے 9 جنوری کو اسلام آباد میں بی بی سی اُردو کو بتایا، "موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان کا رویہ اپنے مغربی ہمسایوں کے ساتھ تبدیل ہوا ہے۔ اس وقت، بہت سارا ثبوت موجود ہے کہ پاکستان افغان امن مذاکرات میں ایک مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔"

داؤدزئی نے 9 جنوری کو ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، "ہم سنہ 2019 کو افغانستان کے لیے امن کے سال کا نام دے رہے ہیں۔"

کابل کے مقامی صحافی بصیر احمد ہوتک نے کہا کہ افغان وفد کے پاکستان کے دورے کا وقت بھی اہمیت کا حامل ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "داؤدزئی کی زیرِ قیادت وفد پاکستان کا دورہ اس وقت کر رہا ہے جب امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے اپنے امن مشن کے جزو کے طور پر علاقائی ممالک کے دوروں کا ایک نیا دور شروع کیا ہے۔"

امریکی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق 8 تا 21 جنوری خلیل زاد ہندوستان، چین، افغانستان اور پاکستان کے دورے کے لیے مختلف محکموں پر مشتمل ایک وفد کیا قیادت کریں گے۔

ہوتک نے کہا کہ یہ داؤدزئی کے لیے ایک بڑی آزمائش ہو گی کہ وہ علاقائی ممالک کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں اپنی کوششوں کا ثبوت دیں۔

مشترکہ اہداف

پاکستان کے اعلیٰ سرکاری حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ، داؤدزئی نے پاکستان کی بارسوخ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ امن کے امور پر تبادلۂ خیال کیا، جنہوں نے پاکستان کی داخلی اور خارجہ پالیسی وضع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

8 جنوری کو پاکستانی دفترِ خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، قریشی کے ساتھ اپنی ملاقات میں، داؤدزئی نے غنی کے امن کے پیغام کو دوہرایا اور "باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں پاکستان کے ساتھ قربت میں کام کرنے کی افغانستان کی بھرپور خواہش کا اظہار کیا"۔

وفد نے کئی سیاسی جماعتوں کے قائدین، بشمول عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء اسفندیار والی، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق اور جمعیت علمائے اسلام (فضل) کے امیر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ جاری امن کوششوں پر تبادلۂ خیال کیا۔

داؤدزئی کے دورے کو سراہتے ہوئے، شیرپاؤ نے کہا کہ ان کی جماعت افغانستان میں امن لانے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پاکستان اور افغانستان دونوں ہی دہشت گردی اور عسکریت پسندی سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ وہ خطے میں امن کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔"

شیرپاؤ نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں افغانستان میں قیامِ امن کے عمل کے متعلق متفق ہیں اور اسے کامیاب ہوتا دیکھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ امن مذاکرات افغان حکومت کی شرکت کے بغیر بارآور نہیں ہوں گے۔

اسلام آباد کے ایک مقامی صحافی حنیف الرحمان نے کہا کہ مختلف پاکستانی قائدین کے ساتھ وفد کی ملاقاتیں ظاہر کرتی ہیں کہ افغانستان امن عمل میں ایک مشمولہ سوچ سوچ رہا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "یہ ایک نیک شگون ہے۔ یہ ہر ایک کو اعتماد اور ملکیت کا احساس فراہم کرے گا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500