کاروبار

پاکستان شکار، کھیلوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی تیاری کے ورثے کو فروغ دے رہا ہے

از عدیل سعید

ہتھیار سازی کا ایک کاریگر گزشتہ 15 نومبر کو پشاور میں مقامی طور پر تیار کردہ ایک پستول کو حتمی تیاری کے مرحلے سے گزارتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

ہتھیار سازی کا ایک کاریگر گزشتہ 15 نومبر کو پشاور میں مقامی طور پر تیار کردہ ایک پستول کو حتمی تیاری کے مرحلے سے گزارتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

بندوق سازی کا ایک کاریگر 15 نومبر 2018 کو پشاور، خیبرپختونخوا میں اسلحہ ساز یونٹ میں ایک پستول پر کام کرتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

بندوق سازی کا ایک کاریگر 15 نومبر 2018 کو پشاور، خیبرپختونخوا میں اسلحہ ساز یونٹ میں ایک پستول پر کام کرتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

ایک بندوق ساز 15 نومبر کو پشاور میں ایک دکان پر مقامی طور پر تیار ہونے والا پستول دکھاتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

ایک بندوق ساز 15 نومبر کو پشاور میں ایک دکان پر مقامی طور پر تیار ہونے والا پستول دکھاتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

ایک بندوق ساز گزشتہ 15 نومبر کو پشاور میں ایک 9 ایم ایم پستول بناتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

ایک بندوق ساز گزشتہ 15 نومبر کو پشاور میں ایک 9 ایم ایم پستول بناتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

ایک نامعلوم غیر ملکی سیاح گزشتہ 30-28 ستمبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے نشانہ بازی اور بیرونِ خانہ شوٹنگ کے کھیلوں کے شو میں ایک اسٹال کے مالک کے ساتھ تصویر کھنچواتے ہوئے۔ [پاکستان ہنٹنگ اینڈ سپورٹنگ آرمز ڈویلپمنٹ کو]

ایک نامعلوم غیر ملکی سیاح گزشتہ 30-28 ستمبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے نشانہ بازی اور بیرونِ خانہ شوٹنگ کے کھیلوں کے شو میں ایک اسٹال کے مالک کے ساتھ تصویر کھنچواتے ہوئے۔ [پاکستان ہنٹنگ اینڈ سپورٹنگ آرمز ڈویلپمنٹ کو]

پشاور -- پاکستانی حکام ملک کے شکار اور کھیلوں کے ہتھیاروں کی تیاری کے زرخیز ورثے کو فروغ دے رہے ہیں، جبکہ وہ قوانین کو سخت کرنے اور بین الاقوامی منڈیوں تک وسیع ہونے پر غور کر رہے ہیں۔

صنعت کو وسعت بھی دینے اور ساتھ ہی منضبط بھی کرنے کا ایک طریقہ بندوق سازوں کو چھوٹے چھوٹے جتھوں میں گروہ بند کرنا ہے، جس کے حصول کے لیے اسلام آباد میں واقع ہنٹنگ اینڈ سپورٹنگ آرمز ڈویلپمنٹ کو (پی ایچ ایس اے ڈی سی) کا ہیڈکوارٹر کوشاں ہے۔

پی ایچ ایس اے ڈی سی کے چیئرمین زاہد اللہ شینواری نے کہا کہ پی ایچ ایس اے ڈی سی کا مقصد پاکستان میں مسابقت کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے شکار اور کھیلوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں اور ان کے لوازمات کو تیار کرنا اور فروغ دینا ہے اور مقامی طور پر تیار کردہ مصنوعات کے معیار کو بہتر بنانا ہے تاکہ وہ بین الاقوامی معیارات پر پورا اتر سکیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "عالمی منڈی میں شکار اور کھیلوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی اور قانونی تجارت کے لیے بہت زیادہ امکانات ہیں۔"

گزشتہ 15 نومبر کو ایک ماہر بندوق ساز پشاور میں ایک فیکٹری کے اندر ایک 9 ایم ایم کا پستول جوڑتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

گزشتہ 15 نومبر کو ایک ماہر بندوق ساز پشاور میں ایک فیکٹری کے اندر ایک 9 ایم ایم کا پستول جوڑتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

شینواری نے کہا، "مقامی طور پر تیار کردہ ہتھیاروں کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے پی ایچ ایس اے ڈی سی کی مداخلت کی وجہ سے، اسلحہ سازوں کو بین الاقوامی خریداروں کی جانب سے برآمد کے آرڈرز موصول ہونا شروع ہو گئے ہیں۔"

انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان میں تیار ہونے والی مصنوعات نے امریکی سند حاصل کی ہے، جس سے وہ امریکہ کو برآمد ہونے کے قابل ہو گئی ہیں۔

کاروبار کو فروغ دینا، ملازمتیں پیدا کرنا

حکام کے مطابق، ہتھیاروں کی صنعت کو منضبط اور وسیع کرنے کے لیے پی ایچ ایس اے ڈی سی کی بصیرت سے تیار کردہ گروہی ماڈل کے ثمرات حاصل ہو رہے ہیں۔

پی ایچ ایس اے ڈی سی کے چیف ایگزیکٹو افسر طاہر خان نے کہا، "پشاور میں اسلحہ سازوں کا گروہ 66 رجسٹرڈ چھوٹے اور درمیانے حجم کے کاروباروں پر مشتمل ہے، جو کہ زیادہ تر کوہاٹ روڈ پر واقع ہیں۔"

انہوں نے کہا، "ان یونٹوں میں براہِ راست 5،000 مزدور ملازمت کرتے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا، "درہ آدم خیل میں، 80 فیصد آبادی بندوق سازی کی صنعت میں کام کرتی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ ان گروہوں میں تیار کردہ شکار اور کھیلوں کے ہتھیاروں میں پستول، 12 گیج کی شارٹ گنز، پمپ ایکشن شارٹ گنز، رائفلیں اور خصوصی ہتھیار شامل ہیں۔

خان نے کہا کہ تمام بندوق سازوں کو ایک ہی علاقے میں اکٹھا کرنے اور تجارت کو بہتر طریقے سے منضبط کرنے کے لیے پی ایچ ایس اے ڈی سی ایک خصوصی انڈسٹریل اسٹیٹ کے قیام کے لیے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے ترقیاتی محکمے کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

اگرچہ ماضی کا فاٹا اب کے پی کا حصہ ہے، فاٹا ترقیاتی محکمے نے اپنا نام برقرار رکھا ہے۔

خان نے کہا کہ انڈسٹریل اسٹیٹ جو پشاور کے نواحی علاقے رحیم آباد میں قائم کی گئی ہے، سنہ 2020 تک مکمل ہو جائے گی۔

پشاور میں بندوقوں کی ایک فیکٹری کے مالک، حامد خان نے کہا، "مقامی فیکٹریوں میں تیار کردہ بندوقوں کی مختلف ممالک میں بہت زیادہ مانگ ہے، لیکن واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے، اسلحے کے بیوپاریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پاکستان چھوٹے ہتھیار درآمد کرنے کے لیے ہر سال ایک بڑی رقم خرچ کرتا ہے، اور ہم نے حکومت سے مقامی طور پر تیار کردہ ہتھیار منتخب کرنے کو کہا ہے جو کہ سستے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ مقامی طور پر تیار کردہ ہتھیاروں میں سرمایہ کاری نہ صرف ان تیارکنندگان کو سہارا دے گی بلکہ اسلحے کی اسمگلنگ کو کم کرنے میں بھی مدد دے گی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

عظیم مہارت

جواب