پشاور -- خیبر پختونخوا (کے پی) پولیس کے بم ڈسپوزل یونٹ (بی ڈی یو) نے پچھلی دہائی میں ہزاروں بم ناکارہ بنائے ہیں اور اپنے تربیت یافتہ افراد میں خواتین کو شامل کرنے کی طرف گامزن ہے۔
سنہ 1986 میں بنیادی طور پر بم ڈسپوزل اسکواڈ کے طرف پر قائم ہونے والا، یونٹ کے پی پولیس کے انٹیلیجنس ونگ، اسپیشل برانچ کے تحت مصروفِ عمل رہا ہے۔ سنہ 2008 میں یہ ایک حقیقی یونٹ بن گیا اور سنہ 2016 میں اسے پورے کے پی میں عملی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے آخر کار ترقی یافتہ بنا دیا گیا۔
کے پی انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) صلاح الدین محسود نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "بی ڈی یو کے پی پولیس کے اہم ترین یونٹوں میں سے ایک ہے۔"
کے پی پولیس کے ترجمان، وقار احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پچھلی دہائی میں یونٹ نے ہزاروں بارودی آلات، خودکش جیکٹوں، راکٹوں، مارٹر گولوں اور بارود سے بھری گاڑیوں کو ناکارہ بنایا ہے۔"
انہوں نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ یونٹ میں بم ناکارہ بنانے والے ماہرین، بشمول انسپکٹر حکم خان اور عبدالحق، نے گزشتہ برسوں میں بارودی مواد کو ناکارہ بنانے کے دوران اپنی جانوں کی قربانی دی۔
انہوں نے کہا، "اگرچہ گزشتہ چند برسوں میں دہشت گردی کے واقعات بہت حد تک کم ہو گئے ہیں، کے پی پولیس کے بی ڈی یو نے سنہ 2018 میں 198 بموں کو ناکارہ بنایا ہے۔"
وقار احمد نے کہا کہ کے پی پولیس کا بی ڈی یو دلیلاً ملک میں مصروف ترین رہا ہے، خصوصاً کیونکہ صوبہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کی کارروائیوں کا سرگرم مرکز رہا ہے۔
خواتین کی بڑھتی ہوئی موجودگی
وقار احمد کے مطابق، بہت سی خواتین پولیس اہلکاروں نے ضلع نوشہرہ میں کے پی پولیس سکول آف ایکسپلوسو ہینڈلنگ میں رضاکارانہ طور پر بموں کو ناکارہ بنانے کی تربیت حاصل کی ہے۔
وقار احمد نے کہا، "اندازاً 3،053 پولیس افسران جنہیں بم کو ناکارہ بنانے کی بنیادی تربیت فراہم کی گئی تھی، ان میں سے 86 خواتین ہیں۔"
انہوں نے کہا، "خواتین پولیس اہلکار، بطور کمانڈوز اور بطور بم ناکارہ بنانے کی ماہرین خصوصی تربیت حاصل کرنے کے بعد، اپنے مرد ساتھیوں کی طرح اب مختلف یونٹوں میں فعال کردار ادار کر رہی ہیں۔"
وقار کے مطابق، کم از کم ایک خاتون افسر بطور سپرنٹنڈنٹ آف پولیس برائے آپریشنز تعینات رہ چکی ہیں، جبکہ تقریباً دیگر آٹھ خواتین بطور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ خدمات انجام دے رہی ہیں۔
پشاور ٹریفک سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ریاض احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہمارے ہاں بہت سی خواتین پولیس افسران ہیں جو ٹریفک پولیس کے ایک یا دیگر شعبے کو سنبھال رہی ہیں، اور وہ بہترین کام کرتی رہی ہیں۔"
سب کے لیے ایک تحریک
پشاور کی ایک مقامی صحافی، امینہ خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "شیشے کی چھت کو توڑ کر اندر گھسنا کبھی بھی آسان نہیں رہا ہے، اور جب کے پی میں محکمۂ پولیس میں شامل ہونے اور خصوصاً بم ڈسپوزل یا کمانڈو تربیت حاصل کرنے کی بات آتی ہے، تو خواتین کو پتھر کا دل رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ صوبے کی قانون نافذ کرنے والی خواتین افسران ملک کی سب سے زیادہ بہادر خواتین ہیں۔
امینہ خان نے کہا، "کے پی، ایک ایسی جگہ جہاں خودکش بموں، برستی گولیوں اور جرم کا ڈر سرایت کر گیا ہے، میں ایسے پیشے کو اپنانے کے لیے بہت زیادہ مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔"
ینہ خان نے کہا، "جب سنہ 2015 میں میری رفیعہ قسیم، جنہوں نے بم ناکارہ بنانے کی تربیت حاصل کی تھی، کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی، تو وہ محض پولیس عملے کی ایک رکن تھیں جو مجھے اپنے بی ڈی یو میں شامل ہونے کے خوابوں اور کچھ ایسا کرنے کے متعلق بتا رہی تھیں جو ایک عام خاتون کے لیے کرنا آسان نہیں ہے۔"
امینہ خان نے بتایا، "نئی نسل کو ایسی حیران کن خواتین سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ وہ ہم سب کے لیے ایک تحریک کا سبب ہیں۔"