دہشتگردی

پاکستان کی جانب سے 2011 میں سعودیوں پر حملے میں ایران کے ممکنہ کردار کی تحقیقات

از ضیاء الرحمان

ایک راہگیر اس نشان زدہ مقام کے قریب سے گزر رہا ہے جہاں 16 مئی 2011 کو کراچی میں ایک مسلح شخص نے کراچی میں سعودی قونصل خانے کے ایک ملازم، حسن القحطانی کو ہلاک کر دیا تھا۔ [رضوان تبسم/اے ایف پی]

ایک راہگیر اس نشان زدہ مقام کے قریب سے گزر رہا ہے جہاں 16 مئی 2011 کو کراچی میں ایک مسلح شخص نے کراچی میں سعودی قونصل خانے کے ایک ملازم، حسن القحطانی کو ہلاک کر دیا تھا۔ [رضوان تبسم/اے ایف پی]

کراچی -- سعودی عرب کی جانب سے کی جانے والی ایک پہلی درخواست کی ایماء پر، پاکستانی حکام نے دو مقدمات کو دوبارہ کھول دیا ہے جن میں سنہ 2011 میں سعودی قونصل خانے پر حملے شامل تھے جن سے ایران کی پشت پناہی سے چلنے والی ایک شیعہ دہشت گرد تنظیم کو منسلک کیا گیا تھا۔

مئی 2011 میں کراچی میں سعودی قونصل خانے کے ایک ملازم، حسن القحطانی کے قتل اور اس سے چند روز قبل قونصل خانے پر گرنیڈ حملوں کی تحقیقات پر ہونے والی پیش رفت پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے، 13 دسمبر کو سعودی عرب کے ایک 13 رکنی وفد نے وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، نیز وزارتِ داخلہ سندھ کے مقامی حکام اور اعلیٰ پولیس افسران سے ملاقات کی۔

پاکستانی حکام نے سپاہِ محمد پاکستان (ایس ایم پی)، جو کہ ایک کالعدم پاکستانی شعیہ دہشت گرد تنظیم ہے، کو دونوں حملوں کے ساتھ منسلک کیا ہے اور کہا ہے کہ تنظیم کا مقصد ملک کی سنی اور شیعہ برادریوں اور سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تناؤ پیدا کرنا تھا۔

11 دسمبر کو روزنامہ امت نے خبر دی کہ سعودی درخواست کے بعد وزارتِ داخلہ سند کو جمع کروائی گئی ایک رپورٹ میں، قتل کی تحقیقات کرنے والے پاکستانی پولیس کے اہلکاروں نے کہا کہ قتل میں ملوث تینوں مرکزی ملزمان ایس ایم پی کے دھڑے المہدی کے رکن ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دیگر تین ملزمان اب ایران میں روپوش ہیں۔

طویل عرصے سے ہو رہی تحقیقات

کراچی کے مقامی ایک دفاعی تجزیہ کار، رئیس احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ماضی میں، کراچی کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایس ایم پی کے کئی ارکان کو فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے میں ملوث ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا تھا۔"

انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ تنظیموں پر طویل عرصے سے جاری کریک ڈاؤن نے ایس ایم پی کو بہت زیادہ کمزور کر دیا ہے۔

کراچی میں سعودی قونصل خانے پر نامعلوم حملہ آوروں کی جانب سے ہینڈ گرنیڈ پھینکے جانے کے چند ہی دن بعد، 16 مئی 2011 کو، دو نامعلوم موٹرسائیکل سوار مسلح افراد نے قونصل خانے کے باہر حسن القحطانی کو ہلاک کر دیا تھا۔

دونوں مرتبہ، حملہ آور فرار ہو گئے تھے۔

سنہ 2011 میں القحطانی کے قتل سے اگلے روز، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایس ایم پی کے ایک رکن، منتظر امام کو قتل سے تعلق رکھنے پر گرفتار کیا تھا۔ اس پر مخالف اسلامی قائدین سمیت دیگر قتلوں کے بھی الزامات تھے۔

اس وقت پاکستان ٹوڈے نے خبر دی تھی کہ امام نے تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ ایس ایم پی کے 200 سے زائد کارکن، بیرونِ ملک سے تربیت یافتہ اور بھاری اسلحے سے لیس، سُنیوں کے تعاقب میں تھے۔

دریں اثناء، 30 دسمبر 2016 کو، کراچی کی ایک عدالت نے المہدی دھڑے سے منسلک ایک دہشت گرد، ذکی کاظمی کو سعودی قونصل خانے پر گرنیڈ حملے کے لیے 14 سال کی سزا سنائی تھی۔

استغاثہ کے مطابق اس نے یہ حملہ اپنے ایک ساتھی تابش حسین کے ساتھ مل کر کیا تھا، جو آصف ماموں کے نام سے بھی مشہور تھا۔

ایران پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کے لیے خطرہ

کئی رپورٹوں نے القحطانی کے قتل میں ایران کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

13 اکتوبر 2011 کو واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی تھی کہ پاکستانی انٹیلیجنس رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے، سعودی حکام نے بھی کہا ہے کہ حملہ آور ایس ایم پی کا رکن تھا، انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دہشت گرد تنظیم کا تعلق ایران کی قُدس فورس سے ہے، جو کہ ایرانی پاسدارانِ انقلاب دستوں (آئی جی آر سی) کی ایک خصوصی فورسز کی یونٹ ہے۔

پاکستانی حکام اور دفاعی تجزیہ کاروں کو پاکستان میں ایرانی انٹیلیجنس کی سرگرمیوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کی گھنٹی سنائی دیتی رہی ہے، جو کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے لیے مضمرات کی حامل ہے۔

اس مہینے کے شروع میں، ریاض نے اسلام آباد کو 1 بلین ڈالر (139 بلین روپے) کی دوسری قسط منتقل کی ہے جو کہ 3 بلین ڈالر (417 بلین روپے) کے امدادی پیکیج کا ایک حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان کے مالی بحران کو ختم کرنا اور ملک کے غیرملکی کرنسی کے ذخائر میں اضافہ کرنا ہے۔ پاکستان نے 1 بلین ڈالر کی پہلی قسط نومبر میں وصول کی تھی اور ریاض کی جانب سے تیسری قسط اگلے ماہ وصول ہونا متوقع ہے۔

شام میں ایرانی فوجی مفادات کے لیے بھاڑے کی سپاہیوں کے طور پر لڑنے کے لیے، آئی آر جی سے زینبیون بریگیڈ کے ذریعے پاکستانی شیعوں کو بھرتی کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اعلیٰ پاکستانی انٹیلیجنس عہدیدار نے اکتوبر میں پاکستان فارورڈ کو بتایا تھا کہ گزشتہ چھ ماہ کے عرصے میں، آئی آر جی سی کے زینبیون بریگیڈ نے 1،600 سے زائد نئے جنگجوؤں کی بھرتی پاکستان سے کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہمارے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ایران اپنی پراکسیز کے ذریعے اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے، لیکن یقین رکھیں کہ یہ اپنے مذموم عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو گا

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 7

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Kia Saudi arab k pakistan ma mulawas hone par b koi tehqikat ?ki gai Hain..sipah e sahaba ore lashkar e jhangvi k peeche kon the.. khufia Idaro ko sab maloom hae..ma aik Sunni hun lekin munafqat ni haqeqat bayan karni chaheye..hazaro Shia mare gaye lekin kuch samne ni aya ore aik Saudi k qatal par 14 sala qaid b hui ore irani link b btaya gaya.. baqiyon k b link batane chaheye..

جواب

لگتا ہے یہ خبر سعودی عرب سے ملنے والے 3 بیلین کے امداد کی خوشی میں بنائی گئی ہے... دوسری بات ایران ,روس , شام نے مل کر داعش دھشت گرد تنظیم(جس کو ساری دنیا دھشت گرد کہتی ہے اور تمام مسلماوں نے داعش سے اظہار بیزاری کیا سوائے خوارج کے) کا مقابلہ کیا اور ساری عالم اس بات کو جانتی ہے تو سوال یہاں یہ بنتا ہے کہ کیا ان کو اس کا مقابلہ نہیں کرنا چاہیے تھا؟ تیسری بات سپاہ محّمد ایک تنظیم بنی تھی اس کی وجہ بھی یہ تھی کیونکہ شیعوں کا قتل عام اور نسل کشی کی گئی اور ایک اندازہ کے مطابق 50,000 شیعوں کو قتل کیا گیا ایسے میں شیعوں کے بعض لوگ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو انہوں نے یہ اقدام کیا لیکن علماء نے ان کا ساتھ نہ دے کر اور پھر بھی صبر کا دامن تھامے رکھا اور یہ باور کرایا گیا کہ دھشت گرد کون ہیں؟ اور اب یہ تنظیم ختم ہو چکی ہے... چوتھی بات شام میں ایران خود حکومت شام کی ایما پر موجود ہے لھذا خواہ مخواہ ایران کے بارے میں ہرزہ سرائی کی گئی ہے. پانچھویں بات شام میں حضرت زینب ع کی مرقد کو گرانا بھی داعش کے مقاصد میں سے تھا لھذا شام کے حکومت کی حمایت ایک ایمانی تقاضی ہے جس کے لیے اہل سنت اور شیعوں نے مل کر قربانیاں دی ہیں لھذا اگر زینبیون وہاں گیے ہیں تو بہت اچھا ہے. چھٹی بات سعودی عرب اب فاش ہو چکا ہے اور وہابیت جو کہ اسلام کے لیے ایک وبال اور کفر و شرک کے فتواوی کی فیکٹری ہے کو امریکہ سے بے تہاشا امداد کی گئی تاکہ وہابیت کو دنیا میں پڑوان چڑھائی جائےکیونکہ وہابیت اور امریکہ کا ایک سوچ یکساں ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کے اور اسلام کے آثار کو مٹایا جائے اور داعش جو کہ امریکہ اور سعودی عرب نے بھائوں کی طرح مل کر داعش کو بنایا بھی اور کھل کر امداد اور پشت پناہی بھی کی.

جواب

ایران کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہ اس لیے کیوں کہ جب تک ایران مشرقِ وسطیٰ میں موجود ہے امریکی اور ان کی کٹھ پتلیاں کبھی اپنا شیطانی مقصد پورا نہیں کر سکتے۔ وہابی صیہونیت کا ہی جزُ ہے اور عقیدے میں یہ بھائی ہیں۔ لہٰذا سپاہِ محمّد بھی اسی لیے بنائی گئی تھی کہ روزانہ کی بنیادوں پر شعیوں کو ہدف بنا کر قتل کیا جائے؛ دنیا میں اگر کسی بھی برادری کے ساتھ ایسا ہو تو وہ کیا کرے گی؟ کیا وہ بیٹھ کر تماشا دیکھے گی؟ نہیں! ہر کوئی قیام کر کے اپنا دفاع کرے گا اور یہی پاکستان کے شعیوں نے کیا۔ دوسرے زینبیون برگیڈ شام میں مقدس مزارات کے تحفظ کے لیے بنائی گئی؛ حضرت محمّدﷺ کی نواسی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا مزار۔ لہٰذا جیسے ہر مسلمان مکة المکرمہ اور مدینہ کا دفاع کرے گا، نبیﷺ کے اہلِ خانہ، اہلِ بیت سلام اللہ علیہم کے مزارات کا دفاع بھی ایسا ہی ہے۔

جواب

جزاک اللہ پہلی بار لسی نے تفصیل سے لکھا ہے اور حقیقت پر پڑے منافقت کے پردے کا چاک کیا ہے شکریہ

جواب

اچھی پوسٹ

جواب

بہت اچھا ۔۔۔ایرانی ایجنڈا پاکستان میں بند ہونا چاہیئے اور ایرانی مولوی مدرسے بھی ۔پاکستان میں فسادات کی جڑ بن گئے ہیں ایرانی نمک خوار مولوی اور ان کا ایجنڈا ۔۔۔یہ لو گوں کو خام نائی رہبر کہ کے ان کے ضمیروں کے ساتھ کھیل رہے خام نائی کے غلام بنا رہے ۔ساجد نقلی جواد نقلی تقی ملتانی اور جان علی کاظمی جیسے ایرانی نمک خواروں کو گرفتار کیا جائے

جواب

اگر یہ سب کچھ معلوم ہے تو ابھی تک ایران کی اس پراکسی وار کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟اور یہ کوئی پہلا اور نہ ہی آخری حملہ تھا۔اگر ایران کی شر انگیزی کو روک دیا جائے تو بالخصوص پاکستان بالعموم یہ خطہ دہشت گردی فرقہ واریت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے

جواب