جرم و انصاف

اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے غیر قانونی فتاویٰ پر سخت سزاؤں کا مطالبہ

از اشفاق یوسفزئی

اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کے ارکان 28 نومبر کو اسلام آباد میں ایسے علماء کے لیے سخت ترین سزاؤں پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے جمع ہوئے جو خودکش بم دھماکوں کی حمایت میں فتوے دیتے ہیں اور دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں۔ [سی آئی آئی]

اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کے ارکان 28 نومبر کو اسلام آباد میں ایسے علماء کے لیے سخت ترین سزاؤں پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے جمع ہوئے جو خودکش بم دھماکوں کی حمایت میں فتوے دیتے ہیں اور دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں۔ [سی آئی آئی]

اسلام آباد -- اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی)، پاکستان کا ایک آئینی ادارہ جو حکومت اور قومی اسمبلی کو اسلامی امور پر قانونی مشورہ فراہم کرتا ہے، نے ایسے غیر مجاز علمائے دین کے لیے سخت ترین سزاؤں کی سفارش کی ہے جو یا تو خودکش حملوں کی حمایت میں فتوے دیتے ہیں یا دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں۔

" پیغامِ پاکستان دستاویز ، جو 10 ماہ قبل چار بڑے مکتبہ ہائے فکر کی نمائندگی کرنے والے 1،829 علمائے دین کی معاونت سے تیار کی گئی تھی، خودکش حملوں، فرقہ واریت، انارکی پھیلانے اور ریاست کی رضامندی کے بغیر جہاد کرنے کو غیر اسلامی قرار دیتی ہے،" اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے پاکستان فارورڈ کو بتایا۔

28 نومبر کو، اسلام آباد میں اس موضوع پر اور اسلام کے نام پر دہشت گردی کے کام کرنے پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے ایاز نے ایک اجلاس کی صدارت کی۔

انہوں نے وضاحت کی کہ پیغامِ پاکستان فتوے کو 5،000 علمائے دین کی جانب سے منظور کیا گیا تھا جو وفاق المدارس کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، جو کہ دنیا بھر میں اسلامی مدارس کی سب سے بڑی فیڈریشن ہے۔

وزیر برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی نور الحق قادری (بائیں) اور اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز (بائیں سے دوسرے) 28 نومبر کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔ [سی آئی آئی]

وزیر برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی نور الحق قادری (بائیں) اور اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز (بائیں سے دوسرے) 28 نومبر کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔ [سی آئی آئی]

انہوں نے کہا کہ غیر مجاز افراد جو محسوس کردہ گناہگاروں کو واجب القتل کہتے ہیں اور خودکش حملوں کی حمایت کرتے ہیں ان جلد از جلد روکنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

قانون کا نفاذ

ایاز نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات موجودہ قوانین کے سخت اطلاق پر زور دیتی ہے تاوقتیکہ حکومت نئی قانون سازی کر لے۔

انہوں نے کہا، "ہم نے موجودہ قوانین کے مطابق سخت سزاؤں کی سفارش کی ہے اور انتہاپسندی کو فروغ دینے کے خواہشمند علماء کے لیے سزاؤں میں اضافہ کرنے کے لیے نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں۔"

ایاز نے مزید کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل چاہتی ہے کہ حکومت تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کرے، جس میں غیر مناسب فتوے جاری کرنے والوں کے لیے 2،500 ڈالر (347،000 روپے) جرمانہ یا تین سال سزائے قید شامل ہے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، "اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا اطلاق کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اور ہم ان علماء کے لیے سخت سزائیں چاہتے ہیں جو اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں، مسلمانوں کو کافر یا غیر مسلم قرار دینے والے فتوے جاری کرتے ہیں اور انہیں شریعت کی رو سے واجب القتل قرار دیتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا، "ایسے تمام فرمان کونسل کی جانب سے مسترد کر دیئے گئے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "ہم وزراء کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ کونسل ایسے تمام فتووں کو مسترد کرتی ہے جو خلافِ قانون جاری کیے گئے ہیں۔"

وزیر برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی، نور الحق قادری جو اجلاس میں شریک تھے، انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ حکومت ان لوگوں کا پیچھا کرنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل کرے گی جو دہشت گردی کرنے کے لیے مذہب کو استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "ہمارا دینِ اسلام امن اور بھائیچارے کی وکالت کرتا ہے۔"

دریں اثناء، وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ انہوں نے وزیرِ اعظم عمران خان سے کہا ہے کہ وہ اپنی حکومت کی پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی کوششوں کے جزو کے طور پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رہنمائی طلب کریں۔

یہ یاد دلاتے ہوئے کہ مذہبی انتہاپسندی کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے، انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم ان لوگوں کو سزائیں دینے کے لیے سختی سے قانون کا نفاذ کرنا چاہتے ہیں جو دہشت گردی میں ملوث ہیں اور فتوے کی آڑ میں قتل و غارت کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔"

خان نے کہا، "ہم معاشرے کو ایک واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ حکومت دہشت گردی سے اس کی تمام تر شکلوں اور مظاہر میں نمٹنے میں مخلص ہے۔ کسی کو بھی مذہب کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔"

دہشت گردی کے خلاف ایک اہم اقدام

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مفید ثابت ہوں گی۔

پشاور کے مقامی سینیئر دفاعی تجزیہ کار، بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ عسکریت پسندوں نے ماضی میں اپنے مفادات کے لیے ہمیشہ اسلام کا نام استعمال کیا ہے۔

انہوں نے کہا، "شروع میں طالبان جنگجوؤں کو احترام ملا تھا کیونکہ وہ اسلام کی حفاظت کے لیے فوج سے لڑنے کے دعویدار تھے، لیکن بعد ازاں انہوں نے اسکولوں پر حملے کر کے، ویکسینیشن کو روک کر اور مارکیٹوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر کے بے گناہوں کو ہلاک کرتے ہوئے خود کو بے نقاب کر دیا۔ عوام کو عسکریت پسندوں کا اصلی چہرہ دکھانے میں اسلامی نظریاتی کونسل کا اہم کردار ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پر لازم ہے کہ وہ وسیع پیمانے پر تشہیر کرے گی دہشت گردی خلافِ شریعت ہے۔

پشاور کے مقامی ایک دفاعی تجزیہ کار خادم حسین نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "فوج نے دہشت گردوں کو بھگا دیا ہے، لیکن ہمیں انہیں تنہا کرنے اور عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں فساد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔"

انہوں نے کہا، "بہت سی دہشت گرد تنظیموں نے اپنے ان دعووں سے مذہب کو بدنام کیا کہ وہ جہاد کر رہی ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 15

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

فتوي جس كے خلاف جن بنیادوں پر دی جائے ان فریقین کو بلا ان کی وضاحت قرآن و سنت کی روشنی میں کی جائے اور غلط فتوے والے کو سزا دی جائے مفتی فتوی دینے کیلئے باقاعدہ کمیٹی کی منظوری دی جائے جو تمام مکاتب فکر کے جید علماء پر مشتمل ہو اور وہ جس مفتی کو اجازت دے شرائط کے تحت ان کو فتوی کی اجازت دی جائے

جواب

کیا حکومت تمام فیصلے اس نام نہاد کونسل سے پوچھ کر کرتی ہے، آپکا مشورہ حکومت کے لئے ردی کے ٹکڑوں سے بڑھ کر نہیں۔ اور حکومت اگر غیر اسلامی کام کرے تو اس پر کوئی گرفت نہیں ۔ یہ تو غلط ہے ان پر بھی گرفت ہونی چاہئے۔

جواب

یہ بہت اچھا قدم ھے لیکن کفر اور واجب القتل کے فتووں کے ساتھ ساتھ شرک اور بدعت کے فتوے لگانے والوں کی بھی گرفت ھونی چاہیے

جواب

چند علماء دیو بند جن کے بڑوں نے تقویت الایمان نامی کتاب کفریات بکیں یہ اج تک اس کی وضاحت علماء کو پیش نہیں کر سکے اور اب اپنی کھال بچانے کے لیے علماء حق کے خلاف اس ملعون حکومت سے مل کر اپنے حق میں لاء بنا نے کا پلان کر رہی ہے جب ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کی گئی تھی تب یہ کہاں مر گئے تھے جب گستاخانہ خاکے بنانے کے پروگرام کا اعلان کیا گیا تب یہ کہاں تھے لعنت ہے ان دین فروشوں پر

جواب

Nagitive hy

جواب

جو لوگ صحابہ کرام کو کافر کہتے ہیں۔خلفاء راشدین کی خلافت کے منکر ہیں۔حضرت ابوبکرؓ حضرت عمر ؓؓ حضرت عثمانؓ کو گالیاں دیتےہیں۔قرآن کی تحریف کے قائل ہیں۔حضرت علیؓ کو نبیوں اور رسولوں پر فوقیت دیتے ہیں۔ وہ ہیں شیعہ اثناءعشری۔ کوئ پاگل ہی گا جو انکو مسلمانوں کی صف میں شامل کرنے کی کوشش کرے گا۔

جواب

جو معاویہ جیسوں کو کاتب وحی یزید پلید کو جائز خلیفہ ابو سفیان جیسے دشمنان اسلام کو صحابی کہے گا ۔ جو دختر رسول پر ظلم کرنے والوں کو رض اللہ کہے اس مرتد کو مسلمان کہنا بھی ظلم ہو گا۔

جواب

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنکو اپنا امام مانا اور انکی اقتدامیں نمازیں ادا کیں آج کے دور میں جو فرقہ حضرت علی کو اپنا امام مانتا ہے مگر انکو نہیں مانتا جنکو حضرت علی نے مانا اگر وہ حضرت علی کے سچے پیروکار ہیں توانکو بہی مانے جنکو حضرت علی نے مانا پہر ساری لڑائی ختم ہو سکتی ہے

جواب

شراب کو پینے کی اجازت دینے والوں کے لے کوٸی قانون ہے؟ اگر نہیں تو چوری کرنے والوں کے لیے کیوں ؟ اورکرپشن کرنے والوں کے لے کیوں؟

جواب

اسلام علیکم بلکل دروست بات ہے کہ جو مذہب کے نام پر فرقہ وارئیت عام کرتے ہیں۔اورمذہب کا غلط استعمال کرتے ہیں۔۔ انکے ساتھ قانونی کاروائ کری جائے۔ تاکہ اسلام وہی شکل اختیار کرلے جو زمانہ نبوی صلی اللل علیہ وسلم میں تھا۔۔ مزید بات یہ کہ اگر کوئ باترتیب قرآن و حدیث اجماع و قیاس سے استدلال کرتا ہے کسی مسئلہ پر اور وہ استدلال مع الفارغ نہ ہو بلکہ بلکل دروست ہو تو میں سمجھتا ہوں وہ اپنی جگہ بلکل صحیح ہے اگر چہ وہ فتوی آپکے خلاف ہو۔۔ تو اس شخص کے لیے کوئ قانونی کاروائ نہ کی جائے کیونکہ اسکا استدلال بلکل دروست ہے۔ استدلال مع الفارغ ہونے کی صورت میں آپ قانونی کاروائ کریں۔۔ اگر چہ وہ آپکے حق میں ہو۔

جواب

اسلام یقینا دہشت گردی کو ناپسند کرتا ہے اور اسی طرح انتہا پسندی کو بھی لیکن کیا ایاز صاحب اور ان کے معاونین انتہا پسندی کی تعریف کرنا پسند کریں گے یا پھر سادہ مزاج عوام کو گمراہ کر کے اسلامی نافذ العمل احکام کی ڈیمانڈ کرنے والوں کو انتہا پسند قرار دے کر ریاستی جبر کرنا چاہتے ہیں؟

جواب

پاکستان کی موجودہ حکومت حرامی ہے ۔ اسلام کے چوکیدارو کو جیل میں بند کر کے ایسے قانون بنا رہیی ہے۔ اے حرام کی حکومت پاکستان یاد رکھ تیرا انجام بہت برا ہو گا عنقریب تو غرق ہو گی انشاءاللّہ

جواب

Islam is trha galam galoch ki ijazat bhe nai dta hazoor islam ki talemat btany s phly apni zuban or ravaia to saf kr lai k koi sun prh to sky

جواب

زبردست اللہ کامیاب بنائے

جواب

تمام مذھبی پروگرام عبادت گاھوں کے اندر کروائےجائیں تو امن کی راہ ھموار ھوگی۔۔

جواب