پشاور -- سویٹ ہوم یتیم خانے ان نوجوانوں جنہوں نے دہشت گردی میں اپنے والدین کھو دیئے ہیں، کو زندگی میں بہتر مواقع کی پیشکش کر رہے ہیں، ان میں سے چند ایک کسی روز فوج میں شامل ہونے کے لیے پُرامید ہیں۔
سویٹ ہومز ان نوجوانوں جو اپنے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں سے محروم ہو چکے ہیں، کی دیکھ بھال کرنے کے لیے وقف ہیں اورانہیں رہائش، خبر گیری اور نشوونما پانے کے مواقع مہیا کر رہے ہیں۔
چھٹی کلاس کے طالب علم، 12 سالہ صادق شاہ نے جمرود شہر، خیبر پختونخوا (کے پی) میں سنہ 2011 میں ہونے والے بم دھماکے میں اپنے والد، عمران شاہ، کو کھویا تھا۔
اپنے والد کے پاکستان کی نیم عسکری فورسز میں وارنٹ افسر کے طور پر سرکاری عہدے کا حوالہ دیتے ہوئے، اس نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "میرے والد خیبر قبائلی ضلع میں خاصہ دار فورس میں صوبیدار تھے۔"
صدیق نے کہا کہ وہ بڑا ہو کر "اپنے علاقے سے دہشت گردی ختم کرنے کے ہدف کے ساتھ" فوج میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے۔
صادق پشاور میں سویٹ ہوم میں منتقل ہو گیا، جو کہ سنہ 2011 میں ملک بھر میں قائم ہونے والے 38 سویٹ ہومز میں سے ایک ہے۔ وہ ایک خودمختار سرکاری خیراتی اور سماجی بہبود کی تنظیم، پاکستان بیت المال (پی بی ایم) کے تحت کام کرتے ہیں۔
ہر ہوم ضرورت مند یتیموں کو پناہ دینے کے ساتھ ساتھ تعلیم، خوراک، طبی علاج، کھیلوں کی سہولیات تک رسائی اور لباس کے علاوہ دیگر بنیادی سہولیات بھی فراہم کرتا ہے۔
سویٹ ہومز ان بچوں کو بدسلوکی، غفلت اور استحصال سے بھی بچاتے ہیں۔ پی بی ایم تمام ہومز کے اخراجات برداشت کرتا ہے۔
پی بی ایم کے انتظامی ڈائریکٹر عون عباس بپی کے مطابق، ادارہ خواتین کو بااختیار بنانے کے 158 مراکز اور محنت کشوں کے بچوں کے لیے 136 سکول بھی چلاتا ہے۔
25 اکتوبر کو پشاور میں سویٹ ہوم کے دورے کے دوران بپی نے صحافیوں کو بتایا، "ان تمام اداروں میں اندازاً 40،000 افراد کو مدد فراہم کی جا رہی ہے۔"
انہوں نے کہا، "ہم نہ صرف ان مستحق یتیم بچوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں بلکہ انہیں درست راستے پر چلانے اور ان میں مثبت سوچ کا نفوذ کرنے میں بھی مخلص ہیں۔"
شائستہ شمس، جو کہ یونیورسٹی ٹاؤن پشاور میں واقع سویٹ ہوم کی انچارج ہیں، نے کہا کہ پشاور کے سویٹ ہوم میں 100 یتیم بچوں میں سے، 40 بچوں نے پچھلی دہائی میں دہشت گردی کے دوران اپنے والد کھوئے تھے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم ان بچوں کی مکمل دیکھ بھال کر رہے ہیں اور انہیں ہر ممکن سہولت فراہم کر رہے ہیں، تاکہ انہیں اپنے گھر میں ہونے کا احساس ہو۔" انہوں نے مزید کہا کہ انہیں مہینے میں ایک بار اپنے گھر جانے کی اجازت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا، "لگ بھگ تمام لڑکے پڑھائی میں اچھے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ہر سال اپنی جماعتوں میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرتے ہیں اور مباحثوں اور کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں۔"
شمس نے کہا، "حال ہی میں سویٹ ہوم کے سات لڑکے کیڈٹ کالجوں میں منتخب ہوئے ہیں۔"
پُرامن پاکستان کے خواب
13 سالہ محمد فاراج قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں سات برس پہلے دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنے والد کے قتل کے بعد حیدر خیل سے پشاور سویٹ ہوم میں منتقل ہوا تھا۔
اس نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "میرے والد، سجاد داوڑ، کاروں کی خریدوفرخت کرتے تھے، اور ہم خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ انہیں میر علی، شمالی وزیرستان میں دہشت گرد بننے والے بھتہ خوروں کو بھتہ دینے سے انکار کرنے پر قتل کیا گیا تھا۔"
فاراج کی تین بڑی بہنیں، ساتویں، آٹھویں اور نوویں جماعتوں میں پڑھتی ہیں نیز ایک بھائی دوسری جماعت کا طالب علم ہے۔ تمام بچے یتیم خانوں میں ہیں۔
اس نے کہا، "میں علاقے سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے فوجی بننا چاہتا ہوں، لیکن مجھے اپنے شہید والد کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ڈاکٹر بننا ہے۔ بابا مجھے ایک ڈاکٹر دیکھنا چاہتے تھے۔"
وادیٔ تیراہ، خیبر قبائلی ضلع سے تعلق رکھنے والا 10 سالہ فرمان خالد آفریدی اپنے والد خالد خان آفریدی، جنہیں پانچ برس پہلے تاوان کے لیے اغواء کر کے قتل کر دیا گیا تھا، کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بڑا ہو کر ڈاکٹر بننے کا ارادہ رکھتا ہے۔
فرمان نے بتایا کہ اس کی صرف ایک چھوٹی بہن بچی ہے۔
اس نے کہا، "میں اپنے والد کا پیشہ اپناؤں گا اور اور وادی تیراہ،جو اب دہشت گردوں سے پاک اور پُرامن جگہ بن چکی ہے، کے مکینوں کی خدمت کے لیے ڈاکٹر بننے کی کوشش کروں گا۔"
اس نے کہا، "ایک پُرامن پاکستان میرا خواب ہے،" ایک ایسا ملک جہاں کوئی دوسرا بچہ دہشت گردی کی وجہ سے اپنے والد سے محروم نہ ہو۔
اس نے کہا، "اگر میں ڈاکٹر نہ بن سکا، تو میرا مقصد فوج میں شامل ہونا ہو گا۔"