سلامتی

سندھ نے پُرتشدد احتجاجوں کے دوران امن و امان قائم رکھنے کے لیے دنگا مخالف فورس بنا دی

از ضیاء الرحمان

سندھ پولیس کے اعلیٰ حکام 7 نومبر کو کراچی، صوبہ سندھ میں نئی بنائی گئی دنگا مخالف فورس سے خطاب کرتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

سندھ پولیس کے اعلیٰ حکام 7 نومبر کو کراچی، صوبہ سندھ میں نئی بنائی گئی دنگا مخالف فورس سے خطاب کرتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی -- سندھ انتظامیہ نے خصوصی مہارتوں کا حامل ایک دنگا مخالف فورس (اے آر ایف) یونٹ بنایا ہے، جسے پورے صوبے کے بڑے شہروں میں پُرتشدد احتجاج اور مظاہروں پر مؤثر انداز سے قابو پانے کا کام سونپا گیا ہے۔

حالیہ برسوں میں، صوبے، خصوصاً اس کے دارالحکومت، کراچی -- ملک کا معاشی مرکز -- میں بہت سے احتجاج، دھرنے اور مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں۔

نومبر کے اوائل میں، سپریم کورٹ سے آسیہ بی بی کی بریت کے ردِعمل میں پاکستان بھر میں پرتشدد احتجاج پھوٹ پڑے تھے، آسیہ ایک عیسائی خاتون ہے جس نے توہینِ رسالت کے الزامات میں پھانسی کی سزا پر نو سال جیل میں گزارے۔

احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کئی متعصب دینی جماعتوں ، جیسے تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)، کی جانب سے کیا گیا تھا اور اس نے مسلسل تین روز تک کراچی کو تہ و بالا کیے رکھا، ٹریفک، تجارت اور روزمرہ کی زندگی مفلوج ہو گئی اور قومی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔

4 نومبر کو ایک مظاہرے کے دوران، کراچی، صوبہ سندھ میں جماعتِ اسلامی کے ارکان نے ایک شارع عام کو بند کر رکھا ہے۔ [ضیاء الرحمان]

4 نومبر کو ایک مظاہرے کے دوران، کراچی، صوبہ سندھ میں جماعتِ اسلامی کے ارکان نے ایک شارع عام کو بند کر رکھا ہے۔ [ضیاء الرحمان]

سنہ 2015 میں قائم ہونے والی، ٹی ایل پی، ایک نسبتاً نئی جماعت ہے، جو اپنے سخت گیر مذہبی جوش اور توہینِ رسالت کے الزامات پر غصے کو بھڑکانے

کے لیے مشہور ہے۔ گزشتہ برس، ملک کے توہینِ رسالت کے متنازعہ قوانین کے زیادہ سخت نفاذ کا مطالبہ کرتے ہوئے، ٹی ایل پی نے پاکستان کے دارالحکومت، اسلام آباد کو کئی ہفتوں تک بند رکھا تھا۔ اس احتجاج نے سابقہ حکومت کے وفاقی وزیرِ قانون کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔

دنگا مخالف فورس بنا دی گئی

7 نومبر کو، سندھ انتظامیہ نے صوبے کے تمام بڑے شہروں میں اے آر ایف کے قیام کا اعلان کیا تھا۔

کراچی میں، اے آر ایف 357 پولیس افسران پر مشتمل ہے لیکن آگے چل کر یہ تعداد 1،000 سے زائد تک وسیع ہو جائے گی۔ کراچی پولیس کے سربراہ امیر احمد شیخ کے مطابق، انہیں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تعینات کیا جا سکتا ہے۔

شیخ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "فورس نے اس بارے میں خصوصی تربیت حاصل کی ہے کہ عام شہریوں کا تحفظ کیسے کرنا ہے اور ان لوگوں کے خلاف کیسے کارروائی کرنی ہے جو احتجاج اور دھرنوں کے دوران قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں۔ وہ احتجاجی مجمعوں کو پرتشدد ہونے سے روکیں گے، ہجوم کو منتشر کریں گے اور امن و امان برقرار رکھنے میں مدد کریں گے۔"

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ خصوصی مہارتوں کے حامل یونٹ کے پاس اصلی گولیوں والی بندوقیں نہیں ہوں گی بلکہ انہیں جدید ترین دنگا مخالف سازوسامان سے لیس کیا جائے گا، بشمول ربر کی گولیاں، آنسو گیس والی بندوقیں، پانی والی توپیں، خصوصی گاڑیاں اور جسمانی حفاظتی لباس۔

ڈویژنل پولیس محکموں نے بھی اپنے اپنے متعلقہ علاقوں میں دنگا مخلاف فورسز قائم کر دی ہیں۔

شہریوں کی جانب سے دنگا مخالف اقدامات کا خیرمقدم

عام پاکستانی، جن کی روزمرہ زندگیوں میں پرتشدد احتجاجوں سے خلل واقع ہوتا ہے، اس حکومتی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

ایک 54 سالہ تاجر، منور علی، نے کہا کہ وہ 1 نومبر کو یو اے ای جانے والی اپنی پرواز میں سوار ہونے سے محروم رہ گئے تھے کیونکہ ٹی ایل پی کے احتجاجی مظاہرین نے ہوائی اڈے جانے والی شاہراہوں کو دو دن تک روکے رکھا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ احتجاج کرنے والوں نے "نہ صرف کئی بڑی شاہراہوں، بشمول وہ جو ہوائی اڈے، بس ٹرمینلوں اور ہسپتالوں کی طرف جاتی ہیں، پر ٹریفک کو درہم برہم کیا بلکہ انہوں نے سرکاری اور نجی املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔"

علی نے کہا کہ اے آر ایف سڑکوں کو کھلوانے اور عوام کو تحفظ کا احساس دلانے میں حکام کی مدد کرے گی۔

کراچی میں ایک تاجر رہنماء، شفقت میمن نے علی کے جذبات کو دوہرایا اور اے آر ایف کی تشکیل کو سراہا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پُرامن احتجاج ہر کسی کا بنیادی حق ہے، لیکن پرتشدد ذرائع استعمال کرنا اور احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں کو بند کرنا مکمل طور پر غیر انسانی اور ناقابلِ برداشت ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500