صحت

کے پی میڈیکل اتھارٹی اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری سے جنگ کر رہی ہے

اشفاق یوسف زئی

امید خان جن کی عمر 23 سال ہے، 26 مئی کو گردے کی پہلی قانونی پیوندکاری جسے حیات آباد، پشاور، خیبر پختونخواہ میں گردوں کی بیماریوں کے انسٹیٹیوٹ میں انجام دیا گیا تھا، سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ ]اشفاق یوسف زئی[

امید خان جن کی عمر 23 سال ہے، 26 مئی کو گردے کی پہلی قانونی پیوندکاری جسے حیات آباد، پشاور، خیبر پختونخواہ میں گردوں کی بیماریوں کے انسٹیٹیوٹ میں انجام دیا گیا تھا، سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ ]اشفاق یوسف زئی[

پشاور -- ایک حکومتی ادارہ جو کہ خیبر پختونخواہ میں طبی پیوندکاری کا نگران ہے، نے نہ صرف اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری کو روکنے بلکہ اعضاء کے عطیات کو ممکن بنانے کے لیے کام کرنا شروع کیا ہے۔

فروری میں، کے پی کے شعبہ صحت نے میڈیکل ٹرانسپلانٹ ریگولیٹری اتھارٹی (ایم ٹی آر اے) کو قائم کیا تاکہ تمام انسانی اعضاء کی پیوندکاری کو باضابطہ بنایا جا سکے اور اس کی نگرانی اور کنٹرول کیا جا سکے۔

اتھارٹی نے 2014 کا ایم ٹی آر اے ایکٹ نافذ کیا جس میں اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری کو روکنے اور اعضاء کی پیوندکاری کرنے والے ہسپتالوں کی نگرانی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایم ٹی آر اے کے نائب منتظم ڈاکٹر فضل مجید نے 9 نومبر کو پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "شہر میں اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری کی شکایات تھیں جن کے مطابقغیر تربیت یافتہ ڈاکٹروں نے مریضوں سے بھاری معاوضہ لیا تھا۔ اب ہم نے مناسب ساز و سامان اور عملہ رکھنے والے ہسپتالوں کو پیوندکاری کی اجازت دے دی ہے"۔

مجید نے کہا کہ دوسرے صوبوں سے مریض پیوندکاری کے لیے کے پی آ رہے تھے کیونکہ اس بارے میں کے پی میں کوئی قانون موجود نہیں تھا"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہمارے پاس ایسے مریض آ رہے ہیں جنہوں نےغلط ڈاکٹروں سے اعضاء کی پیوندکاری کروائی تھی کیونکہ اب قانون غیر قانونی کام کی بالکل اجازت نہیں دے گا"۔

اچھے طریقوں کو فروغ دینا

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ ایم ٹی آر اے کا سخت نفاذ صوبہ میں اچھے طبی طریقوں کو فروغ دے رہا ہے۔

کے پی کے سیکریٹری برائے صحت عابد مجید کے مطابق، ایم ٹی آر اے کے تحت بننے والی کمیٹیاں اعضاء کی پیوندکاری کی نگرانی کر رہی ہیں اور اس بات کو یقینی بنا رہی ہیں کہ تسلیم شدہ طبی انسٹی ٹیوٹس اور ہسپتالوں میں مقرر کردہ معیار پر پورا اترا جا رہا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم ایک رجسٹری اور قومی اور علاقائی نیٹ ورکس بنا رہے ہیں تاکہ پیوندکاری کے مراکز کے معیار اور نتائج کا جائزہ لیا جا سکے اور اعضاء کی پیوندکاری کے بارے میں آگاہی پیدا کی جا سکے"۔

انہوں نے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "ایک زندہ عطیہ دہندہ جس کی عمر 18 سال سے کم نہ ہو، رضاکارانہ طور پر کوئی بھی عضو کسی بھی قریبی زندہ خونی رشتہ دار یا قانونی طور پر رشتہ دار کو علاج کے لیے دے سکتا ہے جس میں والدین، بہن/ بھائی، بیٹے/ بیٹیاں اور شریکِ حیات شامل ہیں "۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "ہماری کمیٹیاں انتہائی وسیع تحقیق کرتی ہیں تاکہ عطیہ دینے اور لینے والے میں تعلق کا پتہ لگایا جا سکے اور اس کے لیے نادرا (نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) کے اعداد و شمار کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ مذہبی علماء کو اسلامی نظریہ پر کام کرنے کا فرض سونپا گیا ہے"۔

ایم ٹی آر اے کے منتظم پروفیسر آصف ملک نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال، لیڈی ریڈنگ ہسپتال، حیات آباد میڈیکل کامپلکس (ایچ ایم سی)، رحمان میڈیکل انسٹی ٹیوٹ (آر ایم آئی) اور نارتھ ویسٹ جنرل ہسپتال کو قرنیہ کی پیوندکاری کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ آر ایم آئی جگر کی پیوندکاری شروع کرنے والا ہے، کہا کہ گردوں کی بیماریوں کے انسٹی ٹیوٹ (آئی کے ڈی) حیات آباد نے گردوں کی چھہ پیوندکاریاں کی ہیں اور ان مریضوں کی جان بچائی ہے۔

پاکستان سوسائٹی برائے ماہرِ امراض چشم کے صدر پروفیسر ضیاء الاسلام نے کہا کہ بنیادی مسئلہ مقامی طور پر اعضاء کو عطیہ کرنے کے رواج کا نہ ہونا ہے جس سے پاکستان کو غیر ممالک میں عطیہ کیے جانے والے اعضاء پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ہمیں اعضاء کے عطیات کو فروغ دینے کے لیے تائیدی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ ہم مقتول عطیہ دہندگان پروگرام کے ساتھ بین الاقوامی تعاون کے بارے میں جاننے اور اس کی مدد کرنے کے لیے کوششوں میں اضافہ کریں گے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اچھی معلومات

جواب

گردوں کے ایسے کئی مریض ہیں جن کے اہلِ خانہ میں ذیابیطس، شدید FSGS، گردے کے موروثی مسائل اور بلند فشارِ خون کی وجہ سے کوئی بھی عطیہ دہندہ نہیں، ان مریضوں کا کیا ہو گا؟؟ یہ ایسے مریضوں کے لیے نہایت خطرناک صورتِ حال ہے۔ میری MTRA اور دیگر نفاذِ قانون کے اداروں سے درخواست ہے کہ برائے مہربانی ایسے مریضوں کے لیے سوچیں اور ان کی جانیں بچائیں۔ میں نے کئی مریضوں کے اہلِ خانہ کو گردوں کے مراکز کے سامنے التجا کرتے دیکھا ہے۔ لیکن وہ ان کی آواز نہیں سنتے۔ خدارا ان غریب خاندانوں کی مدد کریں اور ان کے ٹرانسپلانٹ کی اجازت دیں۔

جواب