سلامتی

داعش کے بہت کم غیر ملکی جنگجو عراق، شام جا رہے ہیں

خالد التائی

"دولتِ اسلامیہ" (داعش) کی طرف سے 30 اکتوبر کو جاری ہونے والی ویڈیو سے لیا گیا اسکرین شاٹ، ایک مامعلوم مقام پر گروہ کے ارکان کو دکھا رہا ہے۔ ]فائل[

"دولتِ اسلامیہ" (داعش) کی طرف سے 30 اکتوبر کو جاری ہونے والی ویڈیو سے لیا گیا اسکرین شاٹ، ایک مامعلوم مقام پر گروہ کے ارکان کو دکھا رہا ہے۔ ]فائل[

حکام کا کہنا ہے کہ غیر ملکی جنگجو ابھی بھی عراق اور شام میں داخل ہو رہے ہیں تاکہ وہ "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کی صفوں میں شامل ہو کر لڑ سکیں مگر ان کی تعداد پہلے سے بہت کم ہو گئی ہے اور انہیں پکڑے جانے کے امکانات بھی پہلے سے بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔

عراقی حکام نے کہا کہ عراق میں آنے والوں کی تعداد میں کمی، عراقی اور بین الاقوامی اتحادی افواج کی بھرپور مہمات کے بعد، داعش کے زمین بوس ہو جانے کا براہ راست نتیجہ ہے اور یہ گروہ کے سرمایے کے ذرائع کو نشانہ بنانے کی حکمتِ عملی کی کامیابی کی علامت ہے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ نے منگل (6 نومبر) کو ایک بیان میں کہا کہ اتحادی فورسز عراق اور شام میں داعش کی باقیاتکو نشانہ بنانا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ اتحاد نے شام میں 3 نومبر سے "28 فضائی حملے جو داعش کے اہداف کے خلاف 44 جھڑپوں پر مشتمل تھے" انجام دیے۔ ان حملوں نے تین ہیڈکواٹر عمارات اور داعش کی دوسری املاک اور سامان کو تباہ کر دیا۔

امریکہ کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیرمین جنرل جوزف ڈنفورڈ نے اکتوبر میں کہا تھا کہ غیر ملکی جنگجو داعش میں شامل ہونے کے لیے شام آنا جاری رکھے ہوئے ہیں مگر ان کی تعداد کافی زیادہ کم ہو گئی ہے۔

عراقی افواج "دولت اسلامیہ" (داعش) کے ارکان کو نکال باہر کرنے کی کوشش کے دوران، گزشتہ سال 25 نومبر کو صلاح الدین صوبہ سے گزر رہی ہیں۔ ]احمد ال رباعی/ اے ایف پی[

عراقی افواج "دولت اسلامیہ" (داعش) کے ارکان کو نکال باہر کرنے کی کوشش کے دوران، گزشتہ سال 25 نومبر کو صلاح الدین صوبہ سے گزر رہی ہیں۔ ]احمد ال رباعی/ اے ایف پی[

انہوں نے کہا کہ نئے پیروکار تقریبا 100 ماہانہ کی شرح سے آ رہے ہیں جو تین سال پہلے اپنے عروج پر 1,500 ماہانہ سے کم ہو گئی ہے۔

اگرچہ نئے آنے والوں کی تعداد کم ہو گئی ہے تاہم ڈنفور نے داعش کے نظریات کی کشش کو ختم کرنے اور "غیر ملکی جنگجوؤں کو شناخت، سزا دینے، بنیاد پرستی ختم کرنے اور معاشرے میں بحال کرنے" کی کوششوں کو جاری رکھنے پر زور دیا۔

عراق کی وزارتِ دفاع کے ترجمان میجر جنرل تحسین ال خافجی نے دیارونا کو بتایا کہ "جو گروہ ناقابلِ شکست ہونے کا دعوی کرتا تھا اسے اب شکست ہو گئی ہے"۔ داعش کے عناصر اب "ہماری فورسز کی طرف سے انتہائی دباؤ میں ہیں، جو ان کا سراغ لگا رہی ہیں اور انہیں مرتکز سیکورٹی مہمات سے نشانہ بنا رہی ہیں"۔

سرحدی سیکورٹی میں اضافہ

ال خفاجی نے کہا کہ عراقی فورسز سرحد کو کنٹرول کرنے اور داعش کی دراندازی کو روکنے کی "بہادرانہ" کوششوں میں مصروف رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "عراق میں داخل ہونے والے دہشت گردوں کی تعداد میں آنے والی کمی، سرحد کی حفاظت اور دراندازوں کی تعداد کو کم کرنے کی اس انتہائی بڑی کوشش کے باعث ہے"۔

انہوں نے کہا کہ عراقی افواج، بین الاقوامی اتحاد کے ساتھ انٹیلیجنس کا تبادلہ کرتی رہی ہیں جس میں داعش کے ٹھکانوں اور نقل و حرکت کے بارے میں معلومات شامل ہیں اور اتحاد نے دراندازی کو روکنے کے لیے ہنگامی مداخلت بھی فراہم کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سب غیر ملکی جنگجوؤں کے عراق میں بہاؤ کو روکنے میں اہم عناصر رہے ہیں۔

ال خفاجی نے کہا کہ "عراق اپنی انٹیلیجنس کی صلاحیتوں کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ تمام متعلقہ سیکورٹی ایجنسیوں میں ہم آہنگی کو مضبوط بنایا جا سکے اور اس کی سرحدوں کے اندر دہشت گردوں کی موجودگی کو مکمل طور پر مٹایا جا سکے"۔

انہوں نے کہا کہ صرف اس ماہ ہی انبار، نینوا اور دیالا کے صوبوں میں ہونے والے سیکورٹی کے آپریشنز سے داعش کے سینکڑوں عناصر کی ہلاکت یا گرفتاریوں کو ممکن بنایا جا سکا ہے اور داعش کی تقریبا 100 آرام گاہوں اور سرنگوں اور 100 گاڑیوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔

تعداد میں کمی آ رہی ہے

اسٹریجک اور سیاسی معاملات کے محقق عامر ال سیدائی نے دیارونا کو بتایا کہ 2015 سے 2016 کے درمیان 20,000 سے زیادہ غیر ملکی جنگجوؤں نے شام اور عراق میں داعش میں شمولیت اختیار کی۔

انہوں نے کہا کہ تاہم، تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، عراق میں داعش کے مقامی اور غیر ملکی جنگجوؤں کی تعداد 1,500 سے کم اور شام میں 5,000 سے کم ہے"۔

ال سیدی نے کہا کہ "یہ ایک اہم کامیابی ہے اور ان آزادی کی جنگوں کا جو ہماری تمام فورسز نے داعش کے خلاف لڑی ہیں اور بین الاقوامی اتحاد کی طرف سے فراہم کی جانے والی عسکری امددا کا نتیجہ ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ گروہ کو اس کے مالی وسائل کے ذرائع کو نشانہ بنانے اور اس کے عناصر کی کڑی نگرانی سے کمزور کر دیا گیا ہے۔

سیکورٹی کے تجزیہ نگار جاسم ہنون نے دیارونا کو بتایا کہ "داعش کو پہنچایا جانے والا سب سے بڑا نقصان عالمی امداد کا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "شہریوں کے خلاف ان کی طرف سے کیے جانے والے بھیانک جرائم اور اس کے دوغلے دعوؤں کے باعث لوگ خصوصی طور پر نوجوان گروہ سے بد دل ہو گئے ہیں"۔

ہنون نے کہا کہ چند سال پہلے ہی، رضاکاروں اور رنگروٹوں کی بہت بڑی تعداد، 100 سے زیادہ عرب، یورپی اور ایشیائی ممالک سے داعش میں شامل ہونے کے لیے جوش در جوق آ رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ "آج، بھرتی کم ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی گروہ میں شامل ہونے کے لیے آنے والے دہشت گردوں کی تعداد بھی۔ ہم عراق اور شام سے دہشت گرد عناصر کی ان کے آبائی ممالک کی طرف الٹی ہجرت دیکھ رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "داعش کے عناصر مایوس اور بکھرے ہوئے ہیں اور ان کا انجام قریب ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500