سلامتی

نئی تزویراتی دستاویز میں ٹی ٹی پی کی تقسیم نمایاں

از ضیاء الرحمان

یہاں دی گئی تصویر ٹی ٹی پی کی نئی 'تزویراتی دستاویز' کا پہلا صفحہ ہے۔ [فائل]

یہاں دی گئی تصویر ٹی ٹی پی کی نئی 'تزویراتی دستاویز' کا پہلا صفحہ ہے۔ [فائل]

کراچی -- حکومت کے انسدادِ دہشت گردی کریک ڈاؤن سے عاجز، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بڑی بے تابی سے اپنے نیٹ ورک کو دوبارہ قائم کرنے اور داخلی تنازعات اور بڑھتی ہوئی عوامی نفرت پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔

تنظیم نے ستمبر کے آخر میں ایک 13 صفحات کی تزویراتی دستاویز جاری کی ہے جس کا مقصد خود کو واپس پہلی کیفیت پر لانا ہے۔

اردو میں تحریر کردہ، دستاویز ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے لیے ایک ہدایت نامے کے طور پر تیار کی گئی ہے، جس میں دس ابواب میں تنظیم کے مستقبل کے منصوبوں کو اجاگر کیا گیا ہے، بشمول ایسے موضوعات جیسے کہ اہداف کو شناخت کرنا، مال، غنیمت کی تقسیم، خودکش بمباروں کا استعمال کرنا، مغویوں سے سلوک اور جاسوسوں کے خلاف کارروائی کرنا۔

بڑھتی ہوئی بداعتمادی اور اختلاف

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئی حکمتِ عملی کی دستاویز ٹی ٹی پی کے نئے سربراہ مفتی نور ولی کی جانب سے تنظیم پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ایک کوشش ہے۔ نورجون میں، افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ملا فضل اللہ کے مارے جانے کے بعداس کا جانشین بنا تھا۔

سول سوسائٹی کے کارکنان کو گزشتہ دسمبر میں کراچی میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں کی سفاکیت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [ضیاء الرحمان]

سول سوسائٹی کے کارکنان کو گزشتہ دسمبر میں کراچی میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں کی سفاکیت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی پولیس 13 اکتوبر کو ایک عوامی اجتماع میں گشت کرتے ہوئے۔ اندرونی جھگڑوں اور حکومتی کریک ڈاؤن سے نقصان اٹھانے کے بعد، ٹی ٹی پی اپنے نیٹ ورک کو دوبارہ قائم کرنے اور اپنے داخلی تنازعات پر قابو پانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی پولیس 13 اکتوبر کو ایک عوامی اجتماع میں گشت کرتے ہوئے۔ اندرونی جھگڑوں اور حکومتی کریک ڈاؤن سے نقصان اٹھانے کے بعد، ٹی ٹی پی اپنے نیٹ ورک کو دوبارہ قائم کرنے اور اپنے داخلی تنازعات پر قابو پانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ [ضیاء الرحمان]

پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ساتھ منسلک ایک دفاعی محقق اسلام آباد کے مقامی محمد اسماعیل خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "عسکری تنظیم اپنی کشش کھو چکی ہے اور اس وجہ سے زیادہ تر دھڑوں نے تنظیم سے الگ ہونا شروع کر دیا ہے، جو یا تو آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں یا پھر ["دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش)] جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ اتحاد قائم کر رہے ہیں۔"

ٹی ٹی پی کے اپنے ہی اندر پھوٹ پڑنے کی وجہ سے، مخالف گروہوں سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کو "جاسوس" قرار دے کر قتل کرنا زیادہ عام ہو گیا ہے۔

پشاور کے مقامی ایک خفیہ اہلکار، جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، نے کہا، "ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان، احسان اللہ احسان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد،اندرونی کشمکش اور مخالف گروہوں کی جانب سے جنگجوؤں کو ہلاک کرنا نہ صرف مہمند اور باجوڑ کے اضلاع میں بلکہ افغانستان کے صوبہ کنڑ میں بھی بڑھ گیا۔"

دی نیوز نے خبر دی کہ 5 اکتوبر کو، ٹی ٹی پی نے درہ آدم خیل میں ٹی ٹی پی کے ایک سابق کمانڈر عارف عرف کاکا کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی تھی، "جس نے وابستگی تبدیل کی اور سیکیورٹی فورسز کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔"

ٹی ٹی پی کی تزویراتی دستاویز میں نچلی صفوں کے جنگجوؤں کو ایک دوسرے کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

دستاویز میں کہا گیا ہے، "اگر ایک فرد پر جاسوسی میں ملوث ہونا ثابت ہو جاتا ہے، تو صرف امیر یا نائب امیر اسے قتل کریں گے۔"

عام شہریوں کی ہلاکتوں پر اشتعال

بڑھتے ہوئے عوامی اشتعال کا سامنا کرتے ہوئے، ٹی ٹی پی نے مبینہ طور پر سیاسی ریلیوں اور انتخابی امیدواروں کو نشانہ بنانے کی اپنی پالیسی ختم کر دی ہے۔ تزویراتی دستاویز میں جنگجوؤں کو ہدایت دی گئی ہے کہ مستقبل میں انہیں ہدف نہ بنائیں۔

تاہم، یہ زور دیتی ہے کہ دفاعی ادارے اور دفاعی اہلکار، نیز جج، وکلاء اور حکومت کے حامی لشکر (قبائلی جنگجو) ترجیح ہوں گے۔"

ٹی ٹی پی ماضی میں عوامی مقامات، بشمول اسکولوں، مساجد اور سیاسی ریلیوں میں عوام الناس کو مارتی رہی ہے۔

10 جولائی کو ایک حالیہ مثال میں، ٹی ٹی پی کے ایک خودکش بمبار نے پشاور میںعوامی نیشنل پارٹی سے منسلک خیبر پختونخوا اسمبلی کے امیدوار ہارون بلوراور کم از کم 20 دیگر پاکستانیوں کو ہلاک کیا تھا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

بہترین

جواب

میں ان سے حکومت کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات شروع کر کے معاملے کو حل کرنے، تحریک ختم کرنے اور پاکستانی شہریوں کی طرح پر امن طور پر رہنے کی درخواست کرتا ہوں۔

جواب

جی ہاں

جواب