سلامتی

ایران نے فوجیوں کے اغوا کا 'ذمہ دار' پاکستان کو قرار دیا ہے

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ایران کا عسکری عملہ 21 اگست 2018 کو ایک تربیتی کورس کی اختتامی تقریب میں مارچ کر رہا ہے۔ ]محسن رنجیکمان/Defapress.ir[

ایران کا عسکری عملہ 21 اگست 2018 کو ایک تربیتی کورس کی اختتامی تقریب میں مارچ کر رہا ہے۔ ]محسن رنجیکمان/Defapress.ir[

کوئٹہ --ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کم از کم ان 11 ایرانی سیکورٹی اہلکاروں کی واپسی کی ذمہ داری لے جنہیں منگل (16 اکتوبر) کو مشترکہ سرحد سے اغوا کیا گیا ہے۔

ایک بیان میں، آئی آر جی سی نے اغوا کے اس واقعہ کا ذمہ دار "دہشت گرد گروہوں" کو قرار دیا۔

ایرانی حکومتی ملکیتی نیوز ویب سائٹ، ینگ جرنلسٹس کلب (وائے جے سی) کے مطابق، اغوا شدگان "سیکورٹی کی ایک مہم" میں ملوث تھے اور ان میں آئی آر جی سی کے ایلیٹ انٹیلیجنس یونٹ کے دو ارکان، باسیج ملیشیا کے سات ارکان اور پانچ عام سرحدی گارڈ شامل تھے۔

تاہم، کچھ دیر کے بعد ہی وائے جے سی کی ویب سائٹ سے اس رپورٹ کو مٹا دیا گیا۔

ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ برگیڈئیر جنرل محمد پاکپور نے کہا ہے کہ پاکستان سرحد پر ایرانی فوجیوں کے اغوا کا "ذمہ دار" ہے۔ ]فائل[

ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ برگیڈئیر جنرل محمد پاکپور نے کہا ہے کہ پاکستان سرحد پر ایرانی فوجیوں کے اغوا کا "ذمہ دار" ہے۔ ]فائل[

جبکہ ایران اپنی زمین پر کام کرنے والے دہشت گردوں کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے، ایران شام کی خانہ جنگی میں لڑنے کے لیے پاکستان کے نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر ملیشیا میں بھرتی کرنے کی بھرپور مہم چلا رہا ہے۔ یہ تصویر ایران کی طرف سے پاکستانیوں کو آئی آر جی سی کی زینبیون برگیڈ میں بھرتی کے لیے استعمال کی جانے والی پروپیگنڈا فلم "لورز سٹینڈ ڈائینگ" سے لی گئی ہے۔ ]فائل[

جبکہ ایران اپنی زمین پر کام کرنے والے دہشت گردوں کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے، ایران شام کی خانہ جنگی میں لڑنے کے لیے پاکستان کے نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر ملیشیا میں بھرتی کرنے کی بھرپور مہم چلا رہا ہے۔ یہ تصویر ایران کی طرف سے پاکستانیوں کو آئی آر جی سی کی زینبیون برگیڈ میں بھرتی کے لیے استعمال کی جانے والی پروپیگنڈا فلم "لورز سٹینڈ ڈائینگ" سے لی گئی ہے۔ ]فائل[

آئی آر جی سی راہ نما: پاکستان 'ذمہ دار'

آئی آر جی سی کے کمانڈر برگیڈئیر جنرل محمد پاکپور نے ایران کی وزارتِ دفاع کی ویب سائٹ پر پوسٹ کی جانے والی ایک ویڈیو میں کہا کہ "پاکستان کی حکومت کو اپنے سرحدی علاقوں کا ذمہ دار ہونا چاہیے"۔

انہوں نے کہا کہ اکیس مارچ سے اب تک، "ہماری بہت سی چوکیوں کو پاکستان کے اندر سے نشانہ بنایا گیا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی فوج کو "عسکریت پسندوں کے ہتھیار ڈالنے اور اغوا شدگان کی صحت کی ضمانت دینی چاہیے اور اس سلسلے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے"۔

پاکپور نے کہا کہ "عسکریت پسندوں کی اس وقت پاکستان میں پناہ گاہیں ہیں، وہ وہاں رہتے ہیں"۔

ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی نے خبر دی ہے کہآئی آر جی سی کی طرف سے سرکاری ٹیلی ویژن پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں آئی آر جی سی نے کہا کہ "ہم پاکستان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ان دہشت گرد گروہوں، جنہیں کچھ علاقائی حکومتوں کی حمایت حاصل ہے کا مقابلہ کرنے اور اغوا شدہ ایرانی فورسز کو فوری طور پر رہا کرے"۔

آئی آر جی سی نے اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا کہ یہ اغوا "انقلاب مخالف گروہوں سے تعلق رکھنے والے دراندازوں" کی طرف سے کیے گئے ہیں۔

پاکستان : ایران 'نااہلی چھپا رہا ہے'

بلوچستان کی وزارتِ داخلہ کے ایک سینئر اہلکار، جن کا تعلق کوئٹہ سے ہے، نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اس بات پر تبصرہ کرنا قبل از وقت ہو گا کہ اغوا کے پیچھے کون ہے مگر میں ایران کے اس بیان کی سختی سے مذمت کرتا ہوں جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ اغوا سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند سرحد پار کر کے پاکستان چلے گئے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگانا صرف نااہلی کو چھپانے کے لیے ہو سکتا ہے۔ میری رائے میں، ایران کے سنی صوبہ سیستان-بلوچستان میں ایران کی سنی آبادی کے خلاف اقدامات غیر پیداواری ثابت ہو رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ ایران دوسروں پر الزام لگانے کی بجائے اپنے مسائل کو حل کرے"۔

انہوں نے کہا کہ "پاکستان اور ایران کے درمیان مسام دار سرحد کی سیکورٹی دونوں ملکوں کے لیے ایک چیلنج ہے کیونکہ یہ ایک ایسے راستے میں بھی موجود ہے جہاں بلوچ علیحدگی پسند خود ارادی کے حقوق کے لیے ایران کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں"۔

فرقہ ورانہ فلیش پوائنٹ

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے خبر دی ہے کہ ایرانی فوجیوں کو "دہشت گردوں کے ایک گروہ نے سرحد کے علاقے لولکدان سے صبح 4 اور 5 بجے کے درمیان اغوا کیا ہے"۔

لولکدان ایران کے صوبہ سیستان-بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان سے 150 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔

صوبہ میں بہت بڑی سنی اکثریت کی بلوچی النسل برادری موجود ہے جو سرحد کی دونوں اطراف پر پھیلی ہے۔

یہ صوبہ طویل عرصے سے ایک فلیش پوائنٹ رہا ہے اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے بلوچی عسکریت پسند باقاعدگی سے سرحد پار مہمات میں ملوث رہے ہیں جن میں ایرانی کی سیکورٹی کی چوکیوں پر کبھی کبھار حملے بھی شامل ہیں۔

28 ستمبر کو،آئی آر جی سی نے کہا کہ اس نے ایسے چار نامعلوم عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے جو سرحد پار کر کے پاکستان سے سیستان-بلوچستان کے صوبے میں داخل ہو گئے تھے۔

عسکریت پسند گروہ، جنداللہ جو ایران میں سنی مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے کا دعوی کرتا ہے، 2000 کے آغاز سے صوبہ میں سرگرم رہا ہے اور اس نے ایران کی شیعہ اکثریتی حکومت کے اہلکاروں اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے والی خونی شورش کا آغاز کیا ہے۔

یہ مہم 2007 میں ہلاکت خیز حملوں کے ایک سلسلے کے ساتھ نکتہ عروج پر پہنچ گئی، جس میں شیعہ مسجد میں ایک خودکش دھماکہ بھی شامل ہے جس میں 28 افراد ہلاک ہو گئے تھے مگر 2010 کے وسط میں گروہ کے راہنما کی ہلاکت کے بعد کمزور پڑ گئی۔

2012 میں جنداللہ کے ارکان نے ایک جانشین تنظیم بنائی جسے جیش ال عدل کہا جاتا ہے اور اس نے سیکورٹی فورسز پر حملے کرنا جاری رکھا۔

ایرانی مشقیں

جبکہ ایران اپنی زمین پر کام کرنے والے دہشت گردوں کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے، تہران شام کی خانہ جنگی میں لڑنے کے لیے پاکستانی نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر ملیشیا کے طور پر بھرتی کرنے کے لیے ایک بھرپور مہم چلا رہا ہے۔

خبروں سے اشارہ ملتا ہے کہ آئی آر جی سی کی زینبیون برگیڈ نے گزشتہ چھہ ماہ میں پاکستان سے زینبیون برگیڈ کے لیے 1,600 نئے شیعہ بھرتی کیے ہیں۔

پاکستانی انٹیلیجنس کی ستمبر 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان سے تعلق رکھنے والے تقریبا 4,000 شیعہ نومبر2016 سے جون2017 کے درمیان ایران میں داخل ہوئے اور پھر واپس نہیں آئے۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے ایک سینئر اہلکار جاوید ناصر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "آئی آر جی سی سے تعلق رکھنے والی زینبیون برگیڈ نہ صرف ایران کے لیے بھرتی میں ملوث ہے بلکہ وہ ایرانی پرتشدد انقلاب کو تہران سے پاکستان میں برآمد کرنے کی سازش بھی کر رہا ہے"۔

]کوئٹہ سے عبدل غنی کاکڑ نے اس خبر کی تیاری میں حصہ لیا۔[

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

پاکستان کو دیکھنا ہو گا کہ پاکستان میں کوئی بھی ایرانی عسکری مہم جوئی پاکستان کی سرحدی سالمیت کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھی جائے۔

جواب