انتخابات

کے پی میں ضمنی انتخابات کے نتائج دہشتگردی کی شکست کے طورپر دیکھے گئے

جاوید خان

13 اکتوبر، 2018 کو پشاور میں پاکستانی انتخابی اہلکار ایک ڈسٹریبیوشن سنٹر پر ضمنی انتخاب کے لیے مواد اٹھائے ہوئے ہیں۔ 14 اکتوبر کو ضمنی انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی 35 نشستوں پر 100 سے زائد امّیدواران نے انتخاب لڑا۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

13 اکتوبر، 2018 کو پشاور میں پاکستانی انتخابی اہلکار ایک ڈسٹریبیوشن سنٹر پر ضمنی انتخاب کے لیے مواد اٹھائے ہوئے ہیں۔ 14 اکتوبر کو ضمنی انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی 35 نشستوں پر 100 سے زائد امّیدواران نے انتخاب لڑا۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

پشاور –25 جولائی کے عام انتخاباتسے قبل خود کش حملوں میں قتل ہونے والے دو سیاست دانوں کے خاندانوں نے 14 اکتوبر کو خیبر پختونخوا (کے پی) میں ضمنی انتخابات میں اپنی متعلقہ نشستوں سے انتخابات لڑ اور جیت کر دہشتگردوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔

ثمر ہارون بلور پی کے 78 سے 10 جولائی کو قتل ہوجانے والے اپنے خاوند،عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) رہنما ہارون بشیر بلور،کی جگہ کے پی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئیں۔

ہارون بلور اس وقت قتل ہوئے جب یکاتوت گاؤں میں ایک نوجوان خود کش حملہ آور نے ایک انتخابی ریلی میں خود کو اڑا لیا جس میں بلور شریک تھے۔ اس حملہ میں، جس کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی، کم از کم 21 افراد جاںبحق ہوئے۔

سردار آغاز گنڈاپور نے پی کے 99 ڈیرہ اسماعیل خان سے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک رکن اور کے پی کے لیے سابق وزیرِ زراعت، اپنے والد سردار اکرام اللہ گنڈاپور کی جگہ لیتے ہوئے نشست جیتی، جو 22 جولائی کو اس وقت جاںبحق ہو گئے تھے جب کے پی کے علاقہ کلاچی میں ایک خود کش حملہ آور ان کی گاڑی سے آ ٹکرایا۔

پشاور میں پولیس اور فوج کے اعلیٰ عہدیداران 14 اکتوبر کے ضمنی انتخابات کے لیے سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کی غرض سے پولنگ سٹیشنز کا دورہ کر رہے ہیں۔ [کے پی پولیس]

پشاور میں پولیس اور فوج کے اعلیٰ عہدیداران 14 اکتوبر کے ضمنی انتخابات کے لیے سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کی غرض سے پولنگ سٹیشنز کا دورہ کر رہے ہیں۔ [کے پی پولیس]

25 جولائی کے عام انتخابات میں پشاور میں ایک پولنگ سٹیشن پر ایک خاتون ووٹ ڈالتے دیکھی جا سکتی ہے۔ 14 اکتوبر کو پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ووٹران کی ایک بڑی تعداد نے دہشتگردی کے خلاف کھڑے ہونے والوں کے ساتھ حمایت کا اظہار کرنے کے لیے خودکش حملوں کے متاثرین کے اہلِ خانہ کے لیے ووٹ ڈالے۔ [جاوید خان]

25 جولائی کے عام انتخابات میں پشاور میں ایک پولنگ سٹیشن پر ایک خاتون ووٹ ڈالتے دیکھی جا سکتی ہے۔ 14 اکتوبر کو پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ووٹران کی ایک بڑی تعداد نے دہشتگردی کے خلاف کھڑے ہونے والوں کے ساتھ حمایت کا اظہار کرنے کے لیے خودکش حملوں کے متاثرین کے اہلِ خانہ کے لیے ووٹ ڈالے۔ [جاوید خان]

اکتوبر 2013 میں گنڈاپور کے بھائی، کے پی کے ایک سابق وزیرِ قانون سردار انصار خان گنڈاپور ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے گیسٹ ہاؤس پر خودکش حملے میں جاںبحق ہو گئے تھے۔

’دہشتگردوں کو شکست‘

پاکستان کے حقوقِ انسانی کے کمیشن کے سابق چیئرپرسن اور اے این پی کے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "دہشتگرد افراد کو تو قتل کر سکتے ہیں لیکن لوگوں کے ارادے کو قتل نہیں کر سکتے۔"

انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں نے ہارون بلور کو شہید کر دیا لیکن وہ امن کے حامی عوام کے عزم کو کمزور نہ کر سکے۔

انہوں نے کہا، "اسی طرح سے شہید اکرام اللہ گنڈاپور کا خاندان اپنے مقصد پر ایسے ہی استادہ رہنے پر تحسین کا مستحق ہے جیسے قابلِ احترام پشتون جرائم اور دہشتگردی کے خلاف کھڑے ہیں۔ لوگوں نے ان کی ہمت پر مثبت ردِّ عمل دیا ہے۔"

خٹک نے کہا، "ان کی فتح دہشتگردی کی شکست ہے،"

تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں نے اتوار کے انتخابی نتائج کا خیر مقدم کیا۔

مردان سے تعلق رکھنے والے سینیئر وکیل فہیم ولی نے ٹویٹ کیا، "ثمر بلور اور اکرام اللہ گنڈاپور کے بیٹے کو انتخاب جیتتے دیکھ کر اچھا لگا۔ ان کے مقصد پر استادہ رہنے کے لیے ان کے خاندانوں اور ووٹ دے کر انہیں فتح یاب کرانے کے لیے عوام پر آفرین۔"

ایک سینیئر صحافی اور ڈیلی ٹائمز اخبار کے مدیر رضا احمد رومی نے ٹویٹ کیا، "دہشتگردوں کو شکست دینے اور پشاور سے جیتنے پر ثمر بلور کو مبارک ہو،"

برگیڈیئر (ریٹائرڈ) اسد منیر نے ٹویٹ کیا، "دو عظیم بلور سیاستدانوں کی زوجہ اور بہو ثمر بی بی کو مبارکباد."

اسی حلقے سے ایک آئین ساز اور صوبائی کابینہ میں ایک سینیئر وزیر، ہارون بلور کے والد، بشیر احمد بلور دسمبر 2012 میں قصہ خوانی میں ایک خود کش حملے میں قتل ہوئے تھے۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ کی ایک تاریخ

ثمر بلور نے اپنی فتح کے بعد پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "میں اپنے لوگوں اور معاشرے کے لیے اسی طرح سے کام کروں گی جیسے بلور خاندان کے دیگر افراد نے کیا۔"

بلور خاندان پشاور کی سیاست میں 1988 سے متاثر کن رہا ہے جب بشیر بلور کے بڑے بھائی غلام احمد بلور پارلیمان میں منتخب ہوئے تھے۔

غلام نے 14 اکتوبر کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم رائے دہندگان کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے بھی مشکور ہیں جنہوں نے انتخابات کے دوران ہمیں ووٹ دیے اور ہماری حمایت کی۔"

پشاور سے تعلق رکھنے والے مہمند ایجنسی کے ایک 48 سالہ قبائلی ہاشم خان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "اتوار کو حلقہ کے رائے دہندگان اس خاندان اور اس کی قربانیوں کے لیے عزت کا اظہار کرنے کے لیے ایک شہید کی بیوہ کے لیے ووٹ ڈالنے کے لیے بڑی تعداد میں باہر نکلے۔"

انہوں نے کہا کہ انہوں نے ااور ان کے تمام اہلِ خانہ نے عسکریت پسندوں کو یہ دکھانے کے لیے ثمر کے لیے ووٹ ڈالا کہ ہزاروں افراد شہدا کے خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ثمر 2002 میں ضلع مانسہرہ سے منتخب ہونے والی غزالہ حبیب تنولی کے بعد 16 برس میں کے پی میں عمومی نشست پر براہِ راست انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والی پہلی خاتون بھی ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

بلور خاندان ایک عظیم خاندان ہے

جواب