صحت

پاکستانی ڈاکٹروں نے دہشت گردی کے متاثرین کے علاج میں مہارت کو دنیا کے ساتھ سانجھا کیا

از اشفاق یوسفزئی

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء ہارون بشیر بلور پر ہونے والے خودکش حملے میں زخمی ہونے والے ایک شخص کا 10 جولائی کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں علاج کیا جا رہا ہے۔ بلور جاں بحق ہو گئے تھے۔ [ایل آر ایچ]

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء ہارون بشیر بلور پر ہونے والے خودکش حملے میں زخمی ہونے والے ایک شخص کا 10 جولائی کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں علاج کیا جا رہا ہے۔ بلور جاں بحق ہو گئے تھے۔ [ایل آر ایچ]

پشاور -- پشاور میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال (ایل آر ایچ)، ایک طبی ادارہ جو سنہ 2002 سے جنگ سے متاثرہ مریضوں کا علاج کرنے میں صفِ اول میں رہا ہے، دنیا بھر کے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے ساتھدہشت گردی کے متاثرین کے علاج پر اپنے تجربات کا اشتراککر رہا ہے۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں شعبۂ امراضِ سینہ و قلب کے سربراہ ڈاکٹر عامر بلال نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "عسکریت پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر نے ان طبی گروہوں کو چوکس کر دیا ہے جو بموں اور خودکش دھماکوں کے سبب لگنے والے زخموں کے انتظام کے متعلق مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ صحت کی ہنگامی دیکھ بھال میں پاکستان کے کردار کو دنیا بھر میں سراہا گیا ہے۔

ستمبر میں، بلال نے پرتشدد حملوں کے متاثرین کے علاج پر اپنی تحقیق کی وضاحت جرمن سوسائٹی برائے جراحت سینہ و قلب و عروق کو کرنے کے لیے برلن کا سفر کیا تھا۔

گزشتہ نومبر میں میلبورن، آسٹریلیا میں سینے اور قلب و عروق کے سرجنوں کی ایسوسی ایشن کی سالانہ کانفرنس کے دوران ڈاکٹر عامر بلال (درمیان میں) ایسوسی ایشن کے ارکان کے ساتھ تصویر بنواتے ہوئے۔ بلال نے دہشت گردی سے متعلقہ زخمون کے علاج پر گفتگو کی تھی۔ [ایل آر ایچ]

گزشتہ نومبر میں میلبورن، آسٹریلیا میں سینے اور قلب و عروق کے سرجنوں کی ایسوسی ایشن کی سالانہ کانفرنس کے دوران ڈاکٹر عامر بلال (درمیان میں) ایسوسی ایشن کے ارکان کے ساتھ تصویر بنواتے ہوئے۔ بلال نے دہشت گردی سے متعلقہ زخمون کے علاج پر گفتگو کی تھی۔ [ایل آر ایچ]

تقریب میں انہوں نے کہا، "جرمنی دہشت گردی سے متعلقہ چوٹوں کے ساتھ نمٹنے پر تربیت کے لیے اپنے ڈاکٹروں کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال بھیجنا چاہتا ہے۔ ہم نے انہیں بموں اور خودکش دھماکوں سے زخمی ہونے والے [مریضوں] کو درپیش صحت کے مسائل اور ان کی [دیکھ بھال کے] انتظام کے متعلق بتایا۔"

بلال نے کہا، "ہم اپنا علم منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔۔۔ دیگر ممالک کے ڈاکٹروں کو کیونکہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے۔ دنیا بھر میں طبی تنظیمیں بموں اور ہتھیاروں سے متاثر ہونے والوں کو بہتر خدمات فراہم کرنے کے طریقے تلاش کر رہی ہیں۔"

مہارت کا بین الاقوامی سطح پر اشتراک

گزشتہ برس، بلال 10 ممالک میں صحت کے بین الاقوامی فورمز پر بات کر چکے ہیں، جن میں انہوں نے اپنی تحقیق پر اور بموں سے لگنے والے کثیر اقسام کے زخموں والے مریضوں کا علاج کرنے میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے وسیع تجربے پر گفتگو کی۔

1،750 بستروں کے اس ہسپتال نے سنہ 2016 اور جون 2018 کے درمیاندہشت گردی سے متعلقہ واقعات میں زخمی ہونے والے اندازاً 1،2000 مریضریکارڈ کیے ہیں۔

انہوں نے کہا، "ان زخمی افراد میں سے تقریباً 95 فیصد کا علاج ہمارے ڈاکٹروں، تکنیکی عملے اور نرسوں کی جانب سے کامیابی کے ساتھ کیا گیا۔ اب، دنیا کو دہشت گردی کا سامنا ہے، اس لیے ہم ان [لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے عملے] کی مہارتوں کو [کسی دوسری جگہ] مریضوں کے مؤثر علاج کے لیے وسیع کر رہے ہیں۔"

بلال جنگ میں ہونے والی اموات کے ایل آر ایچ کے انتظام اور بم سے متعلقہ زخموں سے معذوریوں اور اموات کو کم کرنے کے طریقوں کے متعلق بہت سے ممالک میں لیکچر دے چکے ہیں۔ وہ ممالک جہاں وہ بات کر چکے ہیں ان میں آسٹریا، آسٹریلیا، چین، سپین، سوئٹزرلینڈ، جرمی، یو اے ای، انڈونیشیاء، سکاٹ لینڈ اور روس شامل ہیں۔

ایل آر ایچ کے سابق میڈیکل ڈائریکٹر، ڈاکٹر مختیار زمان آفریدی نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر طبی رفقائے کار کے ساتھ جنگ اور صدمے کے متاثرین کے ساتھ نمٹنے میں تجربات اور مہارت کو پیش کرنا پاکستان کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "دیگر طبی معالجین جن کے ممالک کو پرتشدد عسکریت پسندی کے خطرے کا سامنا ہے کے ساتھ معلومات کے تبادلے کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔"

صدمے میں دیکھ بھال کو بہتر بنانا

کالج آف فیزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی جانب سے ضروری توثیق حاصل کرنے کے لیے پہلا سرکاری شعبے کا ادارہ بننے کے بعد لیڈی ریڈنگ ہسپتال ہنگامی اور صدماتی دیکھ بھال میں خصوصی مہارت کے لیے اعلیٰ ثانوی تربیت شروع کرنے والا ہے۔

آفریدی نے کہا، "ہم نے ان ڈاکٹروں کے لیے خصوصی مہارت کی تربیت کا ایک پروگرام شروع کیا ہے جنیں جنگ اور صدمے کے مارے مریضوں کی دیکھ بھال کو بہتر بنانے کے لیے صوبہ بھر میں تعینات کیا جائے گا۔"

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری، ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ طالبان کی طویل عرصے کی سفاکیوں نے مقامی طبی معالجین کو بتدریج اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ جنگ سے متعلقہ زخموں کے علاج کے فن میں ماہر ہو جائیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہمارے سرجن، خصوصاً وہ جو پشاور کے مقامی ہسپتالوں میں ہیں، ان کے پاس جنگ کے وقت ہونے والے تشدد سے متاثرہ مریضوں کا علاج کرنے اور انہیں سنبھالنے کا وسیع تجربہ ہے۔ اب پوری دنیا ۔۔۔ ہمارے کام سے مستفید ہو [سکتی] ہے۔"

کے پی سیکریٹری محکمۂ صحت عابد مجید کے مطابق، خیبرپختونخوا (کے پی) نے اپنے تمام 26 اضلاع میں ہنگامی صحت خدمات قائم کر دی ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "تمام ضلعی ہیڈکوارٹرز ہسپتالوں میںبم دھماکوں اور خودکش حملوں کےمریض آتے رہے ہیں۔ ہم صحت کے پیشہ ور ماہرین کی استعداد کی تجدید کر رہے ہیں تاکہ وہ جنگ کے متاثرین کو زیادہ مؤثر طریقے سے سنبھال سکیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500