سلامتی

پاکستانی پولیس نے کوئٹہ فائرنگ میں ہلاکتوں کے بارے میں داعش کا دعویٰ مسترد کر دیا

از عبدالغنی کاکڑ

30 ستمبر کو ٹیلیگرام میں شائع ہونے والے داعش کے ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ گروپ کے ارکان کی جانب سے ہزارگنجی، کوئٹہ میں تین "صوفیوں" کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ حقیقت میں، پولیس کا کہنا ہے کہ نامعلوم عسکریت پسندوں نے تین افراد کو زخمی کیا۔ [فائل]

30 ستمبر کو ٹیلیگرام میں شائع ہونے والے داعش کے ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ گروپ کے ارکان کی جانب سے ہزارگنجی، کوئٹہ میں تین "صوفیوں" کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ حقیقت میں، پولیس کا کہنا ہے کہ نامعلوم عسکریت پسندوں نے تین افراد کو زخمی کیا۔ [فائل]

کوئٹہ -- کوئٹہ میں پولیس "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کی جانب سے ذمہ داری کے دعوے کو مسترد کر رہی ہے۔

تنظیم نے کہا کہ اس نے اتوار (30 ستمبر) کو کوئٹہ میں تین صوفیوں -- صوفیانہ اسلامی عقائد کے پیروکارو -- کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ حقیقت میں، حملے میں تین افراد جاں بحق نہیں، زخمی ہوئے تھے۔

داعش اکثر اپنی تنظیم کی اہمیت کو بڑھانے کے لیے ذمہ داری کے جھوٹے دعوے کرتی ہے یا اپنی جانب سے کیے گئے حملوں کے بعد اموات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہے۔

کوئٹہ میں 30 ستمبر کو ڈبل روڈ پر سیکیورٹی اہلکار ایک موٹرسائیکل سوار سے سوالات کرتے ہوئے۔ [عبدالغنی کاکڑ]

کوئٹہ میں 30 ستمبر کو ڈبل روڈ پر سیکیورٹی اہلکار ایک موٹرسائیکل سوار سے سوالات کرتے ہوئے۔ [عبدالغنی کاکڑ]

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس شلکوٹ عبدالسلام نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اتوار کے روز، نامعلوم مسلح عسکریت پسندوں نے کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزارگنجی کے داخلی علاقے میں تین افراد کو نشانہ بنایا۔ تینوں زخمی ہوئے؛ تاہم، ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔"

انہوں نے کہا، "زخمی افراد کو ایک ٹرک میں نشانہ بنایا گیا، اور ان کی شناخت محمد امین، محمد صادق اور محراب خان کے طور پر ہوئی۔ تینوں بلوچستان کے علاقے صحبت پور کے مکین ہیں۔"

جھوٹا دعویٰ

"ہمارے تحقیقاتی ٹیم فوری طور پر جائے واردات پر پہنچ گئی تھی اور دستیاب ثبوت جمع کر لیے تھے،" کا اضافہ کرتے ہوئے سلام نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے "کہ تین افراد جاں بحق ہوئے تھے، اور یہ کہنا قبل از وقت ہو گا [کہ انہیں کیوں] نشانہ بنایا گیا۔"

"ماضی میں [وہاں] بم دھماکوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا، "کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "شلکوٹ کوئٹہ کا ایک شورش زدہ علاقہ ہے، اور ماضی میں عسکریت پسند کئی دیگر افراد کو بھی نشانہ بنا چکے ہیں۔"

سلام نے کہا، "ہم اس مخصوص واقعہ کی تحقیقات تمام زاویوں سے کر رہے ہیں۔۔۔ اس وقت تینوں زخمیوں کا [کوئٹہ میں] بولان میڈیکل کمپلیکس علاج ہو رہا ہے۔"

ہزارگنجی سے تعلق رکھنے والے ایک سیکیورٹی اہلکار، غلام نبی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہمارے اہلکار جو شلکوٹ کے علاقے میاں غنڈی کے قریب گشت کر رہے تھے انہوں نے ہمیں بتایا کہ مسلح افراد نے ٹرک پر فائر کھول دیا تھا۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے حملہ آوروں کا تعاقب کرنے کی پوری کوشش کی لیکن۔۔۔وہ جائے واردات سے فرار ہو گئے۔"

انہوں نے کہا، "ہمارے فوری جوابی کارروائی کے اہلکاروں نے بھی موقع پر موجود کچھ عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کیے [جنہوں نے کہا] کہ موٹرسائیکل پر سوار چار حملہ آوروں نے ٹرک پر ہلہ بول دیا۔ عینی شاہدین نے مزید کہا کہ حملہ بہت [اچانک] تھا ۔۔۔ اس لیے، انہوں نے حملہ آوروں کے چہرے نہیں دیکھے۔"

دہشت گرد تنظیم کے پراپیگنڈہ کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے مزید کہا، "میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ داعش کی جانب سے کیا گیا دعویٰ جھوٹا ہے اور یہ کہ یہاں ایسے کسی واقعہ میں کوئی بھی جاں بحق نہیں ہوا جس کا دعویٰ داعش کی جانب سے عماق کے ذریعے کیا گیا ہے۔"

جولائی میں، دہشت گرد تنظیم نے کوئٹہ میں ایک خونریز حملہ کیا تھا، جس میں ایک انتخابی ریلی میں لگ بھگ 150 پاکستانی جاں بحق ہو گئے تھے۔

داعش نے گزشتہ دسمبر میں کوئٹہ کے ایک گرجا گھر پرایک حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا جس میں نو افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Mene jana hai Fc me

جواب