پناہ گزین

پاکستان میں موجود افغان مہاجرین نے شہریت کے وعدے کو خوش آمدید کہا

اشفاق یوسف زئی

ایک افغان مہاجر 17 ستمبر کو پشاور میں سبزیاں فروخت کر رہا ہے۔ ]اشفاق یوسف زئی[

ایک افغان مہاجر 17 ستمبر کو پشاور میں سبزیاں فروخت کر رہا ہے۔ ]اشفاق یوسف زئی[

پشاور -- پاکستان میں رہائش پذیر افغان مہاجرین وزیراعظم عمران خان کی طرف سے انہیں ان کے میزبان ملک کی طرف سے شہریت دینے کے اعلان پر نہایت خوش ہیں۔

خان نے ایسے افغان اور بنگلہ دیشی مہاجرین کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان 16 ستمبر کو کراچی میں کیا جو 40 سال سے بھی زیادہ کے عرصے سے پہلے پاکستان آئے تھے۔

انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ جو مہاجرین پاکستان میں 40 سال کے عرصے سے زیادہ سے رہائش پزیر ہیں انہیں قومی شناختی (آئی ڈی) کارڈ اور پاسپورٹ دیے جائیں گے، کہا کہ "وہ جو پاکستان میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں کو شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث ملازمت نہیں ملتی تو وہ جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں"۔

خان نے بعد میں 18 ستمبر کو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اپنے فیصلے کی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ 1951 کے حق کے تحت، پاکستان میں موجود مہاجرین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی شہریت کا حق حاصل ہے۔

19 جنوری کو لی جانے والی اس تصویر میں، اسلام آباد کے ایک مہاجر کیمپ میں اپنے کچے گھر کے باہر ایک دکاندار افغان مہاجر بچہ مٹھائیاں فروخت کر رہا ہے۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

19 جنوری کو لی جانے والی اس تصویر میں، اسلام آباد کے ایک مہاجر کیمپ میں اپنے کچے گھر کے باہر ایک دکاندار افغان مہاجر بچہ مٹھائیاں فروخت کر رہا ہے۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

یکم فروری کو اسلام آباد کے مضافات میں واقع ایک مہاجر کیمپ میں افغان مہاجر لڑکیاں اسکول کے بعد بھاگ رہی ہیں۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

یکم فروری کو اسلام آباد کے مضافات میں واقع ایک مہاجر کیمپ میں افغان مہاجر لڑکیاں اسکول کے بعد بھاگ رہی ہیں۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

انہوں نے کہا کہ "ہم اقوامِ متحدہ (یو این) کنونشن کے تحت ان کو زبردستی ملک بدر نہیں کر سکتے"۔

انہوں نے اس وقت پاکستان میں رہائش پزیر افغان مہاجرین کو درپیش غیر یقینی کی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے سول کیا کہ "ہم نہ انہیں زبردستی نکال رہے ہیں اور نہ ہی انہیں شہریت دے رہے ہیں تو ان کا کیا بنے گا؟"

اقوامِ متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق، پاکستان میں اس وقت تقریبا 3 ملین افغان مہاجرین موجود ہیں۔

ان اعداد و شمار میں تقریبا 1.4 ملین اندراج شدہ مہاجرین اور 850,000 غیر اندراج شدہ مہاجرین شامل ہیں جنہوں نے پاکستان سے افغان شہریت کے کارڈ حاصل کیے ہیں جبکہ باقی کے مہاجرین ملک میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق، پاکستان میں افغان مہاجرین کی آبادی میں سے تقریبا 60 فیصد پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ 1.5 ملین افراد اس سے مستفید ہوں گے۔ پاکستان میں موجود مہاجر والدین کے ہاں نئے بچوں کی پیدائش سے، ہر سال80,000 افغان مہاجرین کی تعداد میں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

سب کے لیے فائدہ مند قدم

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے سینئر تجزیہ نگار برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ طویل عرصے سے رہنے والے مہاجرین کو شہریت دینے سے "افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ مزید موثر ہو جائے گی"۔

انہوں نے کہا کہ "اس سے افغان حکومت بھی خوش ہو جائے گی۔ پاکستان میں رہنے والے افغان شہری بیماریوں کا آسان حدف ہیں اور ان کے پاس بنیادی سہولیات کی کمی ہے اور شہریت کی طرف یہ قدم، غیر اہم گردانے جانے والے لوگوں کے لیے بہت ضروری درکار آسانیاں لے کر آئے گا"۔

شاہ نے خان کے قدم کو ایک مثبت قدم قرار دیا اور کہا کہ اس سے افغانیوں میں پھیلے ہوئے پاکستان مخالف جذبات کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

پشاور یونیورسٹی کے ایک پولیٹیکل سائنس دان عبدالرحمان نے کہا کہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو بہت عرصہ پہلے ہی شہریت دے دی جانی چاہیے تھی کیونکہ ان میں سے اکثریت پاکستان میں پیدا ہوئی ہے اور ان کاافغانستان واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ "جو افغان نوجوان اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جا رہے ہیں وہ پاکستان میں خوش ہیں کیونکہ افغانستان میں صورتِ حال اتنی زیادہ اچھی نہیں ہے۔ اس لیے، شہریت کا خیال بہت خوش آئند ہے۔ شہریت ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے افغان مہاجرین کو مقامی برادری کے مرکزی دھارے میں شامل کیا جا سکتا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ایسا کرنے سے حکومت کو مجرمانہ سرگرمیوں میں کسی قسم کی شرکت کرنے والے افغان مہاجرین کا پتہ لگانے میں بھی مدد ملے گی"۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے ایک راہنما، میاں افتخار حسین، جن کا تعلق پشاور سے ہے، نے کہا کہ وزیراعظم کا فیصلہ ایک خوش آئند قدم ہے۔

انہوں نے کہا کہ "افغان دہشت گردی کے سب سے بڑے متاثرین ہیں اور انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تمام سہولیات فراہم کی جانی چاہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانیوں کی اکثریت کو زندگی کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں اور پاکستان کو انہیں شہری تسلیم کر لینا چاہیے تاکہ وہ کامیاب زندگی گزار سکیں اور اپنی توانائیوں کو پاکستان کی ترقی کے لیے استعمال کر سکیں"۔

افغان مہاجرین میں خوشی کی لہر

پشاور سے تعلق رکھنے والے 20 سالہ افغان مہاجر شفاعت اللہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم وزیراعظم کی طرف سے شہریت دینے کے خیال پر بہت خوش ہیں۔ ہم کبھی بھی افغانستان نہیں گئے ہیں اور پاکستان کو اپنا ملک تصور کرتے ہیں"۔

شاہ جو کہ پشاور کی ایک نجی یونیورسٹی میں سائنس کے طالبِ علم ہیں، نے کہا کہ "میرے والدین آبائی وطن میں تشدد کے باعث 30 سال پہلے ہجرت کر کے پشاور آ گئے تھے اور میں یہاں ہی پیدا ہوا اور پلا بڑھا ہوں۔ شہریت سے ہمیں یہاں عزت و آبرو سے رہنے کے لیے اعتماد دے گی"۔

گل عزیز، ایک افغان مہاجر جو ہرات صوبہ سے 25 سال پہلے پشاور آئے تھے اور بورڈ بازار میں کریانے کی ایک دکان چلاتے ہیں، نے کہا کہ وہ خان کے اعلان سے خوش ہوئے ہیں۔

گل نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "دہشت گردی نے افغانستان کو نشانہ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے مقابلے میںکام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے مواقع محدود ہیں ۔ ہمارے بچے واپس جانا نہیں چاہتے ہیں اس لیے انہیں پاکستان کے شناختی کارڈ دینا ایک دانش مندانہ فیصلہ ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "میرے تین بچے پشاور کے ایک نجی اسکول میں جاتے ہیں اور وہ بہت خوش ہیں۔ اس کی وجہ پاکستان میں ہماری موجودگی ہے کہ میں کام کر رہا ہوں اور وہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہاں ہمارے پاس بجلی اور ہسپتال ہیں۔ افغانستان میں عسکریت پسندوں نے ہر چیز تباہ کر دی ہے"۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک افغان بزرگ محمد اکرم نے کہا کہ افغانیوں کی تین نسلیں اب پاکستان میں رہ رہی ہیں اور وہ اسے اب اپنا گھر سمجھتے ہیں۔

اکرم نے کہا کہ "افغانیوں کو پاکستانی شہریت دینے سے ان لوگوں کا بھلا ہو گا جنہیں مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے تمام حصوں میں رہنے والے افغانیوں کو شہریت دی جائے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہم اس میزبانی پر پاکستان کے شکرگزار ہیں جو اس نے گزشتہ کچھ دہائیوں سے ہمارے لیے کی ہے اور امید کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو یہاں شہریت مل جائے گی"۔

پشاور کے ایک سبزی فروش جنت گل، نے کہا کہ اس کے والدین 1988 میں ننگرہار صوبہ کے شہر جلال آباد سے ہجرت کر کے آئے تھے مگر وہ خود کبھی بھی وہاں نہیں گیا ہے۔

اس نے کہا کہ "میں یہاں پیدا ہوا تھا اور پاکستان کو اپنا ملک تصور کرتا ہوں۔ عمران خان کا اعلان ہمارے لیے بہت بڑا تحفہ ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ افغان حکومت پاکستان کو اس منصوبے کو نافذ کرنے کے لیے قائل کرے"۔

پاکستانیوں کی طرف سے مدد کی پیشکش

پاکستانیوں نے عمران خان کے خیال کی حمایت کی جن میں باچا خان انٹرنیشنل ایرپورٹ پشاور کے امیگریشن کے افسران بھی شامل ہیں۔

ایک امیگریشن افسر، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پاکستان فارورڈ سے بات چیت کی، کہا کہ "پاکستان کا افغانستان کے ساتھ دوہری شہریت رکھنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ یا شناختی کارڈ کی خواہش رکھنے والے ہر شخص کو پہلے اپنی افغان شہریت سے دست بردار ہونا پڑے گا"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم بہت سے ایسے افغان شہریوں کو گرفتار کرتے رہے ہیں جن کے پاس جعلی پاکستانی پاسپورٹ یا شناختی کارڈ ہیں اور انہیں شہریت دینے سے افغانیوں کو ایک نئی زندگی مل جائے گی"۔

خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت کے ایک ترجمان شوکت یوسف زئی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے تمام صوبوں سے وہاں پر رہائش پذیر افغان مہاجرین کی تفصیلات طلب کی ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس منصوبے کے نفاذ کے لیے قوانین بنائیں گے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ خان کی حکومت مہاجرین کی پالیسی کو درست کرنا چاہتی ہے اور فوج نے پہلے ہی پاکستان -افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانا شروع کر دی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 7

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

جی ہاں یہ تو بلکل ٹیک ہے میں نے خود پاکستان میں تعلیم حاصل کی اور میرے کلاس فیلو کحچھ ایرفورس میں گے کوہی اٹامک اور میرا یہ ارمان دل پہ رہے گیا حتا کہ نہ تو ہم گے افغانستان اور نہ دیکھا ہے

جواب

جی جناب میری پیدائش یہیں کی ہے؛ میں پاکستانی شہریت حاصل کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ پاکستان میرا ملکِ پیدائش ہے۔ مجھے پاکستان پسند ہے

جواب

میں ایک افغانی نژاد ہوں اور پاکستان میں پیدا ہوا اور پاکستان ہی میرا واحد گھر ہے۔ میں نے ہمیشہ خود کو ایک پاکستانی سمجھا ہے، اگرچہ میرے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں ہے لیکن پھر بھی پاکستانی افغان ہونے پر فخر ہے۔ 2010 میں میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ گیا کیوں کہ میرے پاس فارم ب یا قومی شناختی کارڈ نہیں تھا، انہوں نے مجھے اجازت نہ دی، نہ ہی میں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر سکتا ہوں اور نہ کسی مناسب جگہ ملازمت کر سکتا ہوں۔ میں نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا کہ حکومتِ پاکستان ہمیں پاکستانی یا انسان سمجھے گی۔ میں فی الحقیقت اس امر پر داد دیتا ہوں کہ عمران خان نے افغانیوں کو شہریت دینے کا اعلان کیا۔ شکریہ عمران خان۔

جواب

یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

جواب

ہم تمام افغان پناہ گزین عمران خان کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم کبھی پاکستان کو دھوکہ نہیں دیں گے۔ پاکستان فارورڈ ویب سائیٹ کا شکریہ

جواب

میرا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم کا یہ اقدام نہایت خوش آئند ہے۔ شہریت دینے سے افغانوں میں احساسِ کمتری کا خاتمہ ہو گا اور وہ ایک آزاد پاکستانی کے طور پر اپنی زندگیاں جاری رکھ سکیں گے۔ وہ نگہداشت صحت اور تعلیم کی ان سہولیات تک رسائی حاصل کر سکیں گے جن سے وہ محروم ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ یہ کچھ مشکل ہو گا اور یہ آسان نہیں کیوں کہ دیگر سیاسی جماعتوں نے وزیرِ اعظم کے بیان پر تنقید کی ہے۔ بحرحال ہم پرامید ہیں کہ وزیرِاعظم اس اقدام پر اپنا کام جاری رکھیں گے۔

جواب

میں خوش ہوں کہ پاکستان نے ہمیں پناہ فراہم کی۔

جواب