اسلام آباد -- 1997 کے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) میں اصلاحات کے مطالبے کے باعث، سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے مالیاتی شعبے کے لیے نئے ضابطوں کو متعارف کروایا ہے تاکہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے سرمایہ کاری پر کریک ڈاؤن کیا جا سکے۔
ایس ای سی پی نے 7 ستمبر کو ایک نئی رپورٹ جاری کی جس میں پاکستان اینٹی منی لانڈرنگ اینڈ کاونٹرنگ فنانسنگ آف ٹیررازم ریگولیشنز (اے ایم ایل/ سی ایف ٹی) 2018 کے لیے نئے ضابطے موجود ہیں۔
ایس ای سی پی کے ایک بیان کے مطابق، ان ضابطوں کے تحت مالیاتی شعبے کے اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ "ایک موثر اے ایم ایل/ سی ٹی ایف اور خطرے کی تشخیص و تعمیل کا فریم ورک تیار کریں"۔
ان میں صارفین، مصنوعات، لین دین، خدمات، جغرافیائی علاقے یا ملک اور اس کے ساتھ ہی فراہمی کے ساتھ جڑے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے سرمایے کے خطرات کی شناخت اور تشخیص کی بھی ضرورت ہے۔
ایس ای سی پی نے تجویز کیا ہے کہ "پالیسیوں اور تکنیکی ترقی کو منی لانڈرنگ، دہشت گردی کے لیے سرمایہ کاری کی اسکیموں میں غلط استعمال سے روکنے کے طریقہ ہائے کار کے ساتھ مناسب نظام، اندرونی پالیسیاں، طریقہ ہائے کار، کنٹرول، صارفین کے بارے میں احتیاط کے مناسب اقدامات، ریکارڈ رکھنے کا طریقہ، گروپ پر محیط اے ایم ایل سی/ ایف ٹی پروگرام، سکریننگ کے طریقہ ہائے کار اور ملازمین کی تربیت کے پروگرام ہونے چاہیں"۔
نئے ضابطوں میں کہا گیا ہے کہ نگران افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ "ایسے افراد، اداروں اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کاروباری تعلقات قائم نہ کریں جنہیں اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے تحت جنہیں پاکستان نے اپنایا ہے یا 1997 کے انسدادِ دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت ممنوع قرار دیا ہے"۔
پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کی اصلاح
دریں اثنا، پاکستان کے بہت سے سیاسی اور سیکورٹی کے تجزیہ نگار نئی بننے والی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اے ٹی اے کی جانچ پڑتال کرے۔
انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹیڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کی 31 اگست کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "اے ٹی اے میں ایک بڑی خامی یہ ہے کہ اس کی دفعات میں دہشت گردی کی تعریف بہت مبہم اور ضرورت سے زیادہ وسیع ہے۔ اس سے ایسے جرائم جن کا عسکریت پسندی یا دہشت گردی کے کالعدم نیٹ ورکس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا پر بھی اس کی دفعات کو لاگو کیا جا سکتا ہے"۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کے نتیجہ میں، اس قانون کے تحت جن مجرموں کے خلاف مقدمات چلائے جاتے ہیں ان میں سے ایک بڑی تعداد دہشت گردی، عسکریت پسندی یا متشدد انتہاپسندی میں ملوث نہیں ہوتی ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں (اے ٹی سیز) میں بہت زیادہ مقدمات کی سماعت ہوتی ہے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق عام جرائم سے ہوتا ہے۔
رپورٹ میں انسانی حقوق اور قانون کی دو تنظیموں، لاہور کے جسٹس پراجیکٹ پاکستان اور لندن کے ریپرائیو، کی دسمبر 2014 کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "اے ٹی اے کے تحت دہشت گردی سے متعلقہ جرائم میں سزا پانے والوں میں سے تقریبا 80 فیصد پر ایسے جرائم کا لزام ہوتا ہے جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا"۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی اے ٹی سیز سے سزائے موت پانے والوں میں سے 86.3 فیصد ایسے تھے جنہوں نے ایسے جرائم کیے تھے جن کا دہشت گردی سے معمولی یا کوئی تعلق نہیں تھا"۔
اے ٹی اے پاکستان کا بنیادی قانون ہے جو انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات پر حکمران ہے۔ اس قانون کا مقصد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات کو بڑھانا تاکہ دہشت گردی کا انسداد کیا جا سکے، دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات کی تفتیش کرنا اور عسکریت پسندی میں ملوث ملزمان کے مقدمات کی سماعت کو تیز کرنے کے لیے خصوصی عدالتیں بنانا ہے۔
خصوصی قانون ہونے کے تحت، اے اٹی اے کو ایسے بھی کسی عمومی قانون پر برتری حاصل ہے جو انسدادِ دہشت گردی کے معاملات سے نپٹتا ہو۔
واضح تعریف کی ضرورت ہے
پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے سینئر تجزیہ کار اور سابقہ وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں کے سیکورٹی سیکریٹری برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "1997 کے اے ٹی اے میں دہشت گردی کی واضح طور پر تعریف کی جانی چاہیے تاکہ دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم میں کسی قسم کی غلط مہمی کو واضح کیا جا سکے"۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں، پاکستان نے اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ دہشت گردی کی واضح تعریف کی جائے مگر کچھ طاقت ور ممالک کی طرف سے اپنے مقاصد کے لیے دہشت گردی کی اپنی تعریف کو استعمال کیے جانے کے باعث، ابھی تک عالمی سطح پر اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی"۔
برگیڈیر شاہ نے کہا کہ "نئی پاکستانی حکومت (وزیراعظم عمران خان کے زیرِ حکومت) کو اے ٹی اے میں اصطلات کرنی چاہیں اور دہشت گردی کی ایک واضح تعریف کرنی چاہیے تاکہ ایسے مقدمات جن کا عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ اے ٹی اے کے دائرہ اختیار میں نہ آئیں"۔
اسلام آباد کے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کانفلکٹ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کے مینجنگ ڈائریکٹر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ بات سچ ہے کہ اے ٹی اے میں بیان کی جانے والی دہشت گردی کی تعریف مبہم ہے جس سے ایسے نظام میں پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو عسکریت پسندی سے جنگ کرتا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ اے ٹی اے میں دہشت گردی سے متعلق مقدمات میں ملوث ججوں، تفتیش کاروں اور عینی شاہدین کے لیے کسی تحفظ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
خان نے کہا کہ "حکومت کو اے ٹی اے میں مزید اصلاحات کو متعارف کروانا چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ تمام اہم فریقین کو مناسب تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے اور جو لوگ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں انہیں مناسب سزائیں دے دی گئی ہیں"۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں پر ضرورت سے زیادہ بوجھ
اسلام آباد کے ادارے فلیش سیکورٹی سروسز کے سی ای او کرنل (ریٹائرڈ) علی رضا نے کہا کہ "شادیوں یا خاندان یا برادری میں کسی اور تقریب کے موقعوں پر ہوائی فائرنگ کرنے والے مقدمات کو اے ٹی اے کے تحت دائر کیا جاتا ہے"۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کچھ بدعنوان پولیس افسران جان بوجھ کر دہشت گردی سے غیر متعلقہ مقدمات کو اے ٹی اے کے تحت درج کرتے ہیں جس سے ملزمان اور اس کے ساتھ ہی عدلیہ کے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں"۔
رشوت نہ ملنے کی صورت میں بدعنوان حکام مدعا علیہان کو اے ٹی اے کے تحت مقدمات دائر کرنے سے ڈرانے کے لیے مشہور ہیں کیونکہ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ زیادہ قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
رضا جو کہ اس سے پہلے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے انسدادِ دہشت گردی کے شعبہ میں کام کرتے تھے، نے کہا کہ اے ٹی سیز کی طرف سے بہت زیادہ غیر متعلقہ مقدمات کو سننے کا مسئلہ کئی بار اٹھایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاہم، کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے تاکہ عسکریت پسندی سے موثر طور پر لڑا جا سکے اور دہشت گردی کے لیے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔