پناہ گزین

اقوامِ متحدہ افغان پناہ گزینوں کی از سرِ نو آبادکاری کے لیے مزید بین الاقوامی معاونت کی متلاشی

محمّد اہِل

ہفتہ (8 ستمبر) کو اقوامِ متحدہ کے ہائی کمیشنر برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) فلِپّو گرینڈی اور ایک پاکستانی اداکارہ اور یو این ایچ سی آر کی گڈول ایمبیسیڈر ماہرہ خان نے پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے خاندانوں کا دورہ کرتے ہوئے ان کی وطن واپسی کے لیے بین الاقوامی معاونت کا مطالبہ کیا۔ [محمّد اہِل]

پشاور -- ہفتہ (8 ستمبر) کو اقوامِ متحدہ کے ہائی کمیشنر برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) فلِپّو گرینڈی اور ایک پاکستانی اداکارہ اور یو این ایچ سی آر کی گڈول ایمبیسیڈر ماہرہ خان نے پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے خاندانوں کا دورہ کرتے ہوئے ان کی وطن واپسی کے لیے بین الاقوامی معاونت کا مطالبہ کیا۔

گرینڈی اور خان نے اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکریٹری جنرل برائے امورِ انسانیت و ہنگامی امداد معاون مارک لوکاک کے ہمراہ پشاور کے قریب آزاخیل رضاکارانہ وطن واپسی مرکز پر خاندانوں کا دورہ کیا۔

گرینڈی نے کہا، "اگرچہ [پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کی] جبری واپسی نہیں ہوگی، تاہم اقوامِ متحدہ کی یہ ایجنسی چاہتی ہے کہ تمام افغان افغانستان واپس لوٹ کر دوبارہ آباد ہوں اور ایک عام زندگی جیئں۔"

گرینڈی نے کہا کہ تاحال تقریباً 1.4 ملین اندراج شدہ افغان پناہ گزین پاکستان میں مقیم ہیں، اور خیبر پختونخوا (کے پی) اور بلوچستان سے ان کی رضاکارانہ وطن واپسی جاری رہے گی۔

8 ستمبر، 2018 کو اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین فلِپّو گرینڈی کے نوشہرہ میں آزاخیل رضاکارانہ وطن واپسی مرکز کے دورہ کے دوران افغان خواتین انتظار کر رہی ہیں۔ [عبد المجید/اے ایف پی]

8 ستمبر، 2018 کو اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین فلِپّو گرینڈی کے نوشہرہ میں آزاخیل رضاکارانہ وطن واپسی مرکز کے دورہ کے دوران افغان خواتین انتظار کر رہی ہیں۔ [عبد المجید/اے ایف پی]

8 ستمبر کو پاکستانی اداکارہ اور یو این ایچ سی آر گڈ ول ایمبیسیڈر ماہرہ خان وطن واپسی کے عمل کا مشاہدہ کرنے کے لیے آزاخیل رضاکارانہ وطن واپسی مرکز کا دورہ کر رہی ہیں۔ [محمّد اہِل]

8 ستمبر کو پاکستانی اداکارہ اور یو این ایچ سی آر گڈ ول ایمبیسیڈر ماہرہ خان وطن واپسی کے عمل کا مشاہدہ کرنے کے لیے آزاخیل رضاکارانہ وطن واپسی مرکز کا دورہ کر رہی ہیں۔ [محمّد اہِل]

8 ستمبر کو آزاخیل رضاکارانہ وطن واپسی مرکز میں یو این ایچ سی آر کا ایک عہدیدار اقوامِ متحدہ ہائی کمشنر برائے پناہ گزین فلِپّو گرینڈی اور پاکستانی فلم اداکارہ ماہرہ خان کو بریفنگ دے رہا ہے۔ [محمّد اہِل]

8 ستمبر کو آزاخیل رضاکارانہ وطن واپسی مرکز میں یو این ایچ سی آر کا ایک عہدیدار اقوامِ متحدہ ہائی کمشنر برائے پناہ گزین فلِپّو گرینڈی اور پاکستانی فلم اداکارہ ماہرہ خان کو بریفنگ دے رہا ہے۔ [محمّد اہِل]

گریںڈی نے اس تصور کی تردید کی کہ پاکستان میں افغان پناہ گزین کبھی افغانستان نہیں لوٹیں گے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 20 برس کے دوران 4 ملین سے زائد افغان پناہ گزین لوٹ چکے ہیں اور متعدد دیگر آج وطن واپس جانے کو تیار ہیں، انہوں نے تسلیم کیا کہ "چند [پناہ گزین] اس لیے لوٹنے سے ہچکچا رہے ہیں کہ وہ سلامتی کی صورتِ حال اور معاش سے متعلق خائف ہیں، جس کا عالمی برادری کو خیال رکھنا ہو گا۔"

یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق، یکم مارچ سے اب تک 10,000 سے زائد افغان پناہ گزین واپس افغانستان لوٹ چکے ہیں۔

9 ستمبر کو تقریباً 45 پناہ گزین خاندان رضاکارانہ وطن واپسی مرکز سے نکلے۔

تعلیم پر ارتکاز

گرینڈی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، "پاکستان میں افغان پناہ گزین آبادی کا دو تہائی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ انہیں تعلیم اور ہنر کے ذریعے عطائے اختیار دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ پاکستان میں مہمان کمیونیٹیز کی جانب اپنا کردار ادا کر سکیں – اور واپس لوٹنے پر اپنے ملک کی تعمیرِ نو میں مددگار ہو سکیں."

انہوں نے کہا کہ اداکارہ خان "پناہ گزینوں، بطورِ خاص نوجوانوں کے مسائل اجاگر کرنے کی ایک قوی وکیل ہیں۔"

خان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پناہ گزینوں میں نصف سے زائد بچے ہیں – اور اگر بین الاقوامی برادری ان کی تعلیم پر مرکوز ہو جائے، تو یہ افغان قوم کے لیے ایک بہتر مستقبل کی ضمانت ہو گی۔

انہوں نے کہا، "میں مدد کے لیے موجود ہوں۔ مجھے پہلی مرتبہ کے پی کا دورہ کر کے اور افغان پناہ گزینوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ میں ذاتی طور پر پناہ گزین بچوں کی مدد کرنا اور انہیں تعلیم دینا چاہتی ہوں۔"

خان نے کہا، "یہ 40 برس تک [پاکستان میں] رہنے کے بعد اپنے ملک واپس لوٹنے والے افغانوں کی تیسری نسل ہے، لہٰذا سلامتی، ملازمتوں اور باعزت بودوباش کے لیے ان کی مدد کی جانی چاہیئے۔"

خان نے کہا، "[یہ بچے] ایک روشن افغانستان کا مستقبل ہیں۔"

کے پی میں مقیم افغان پناہ گزینوں نے یہ کہتے ہوئے اپنے بچوں کی تعلیم کی وکالت کرنے پر خان کی ستائش کی کہ وہ تعلیم کو دہشتگردی کے لیے تریاق اور ایک مستحکم اور آسودہ حال افغانستان کی کنجی خیال کرتے ہیں۔

ایک پناہ گزین کیمپ کے باہر 54 سالہ معروف خان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ تیس برس سے زائد عرصہ قبل جنگ سے تباہ حال افغانستان سے فرار ہوا اور اب واپس جا رہا ہے۔

اس نے کہا، "میرے بچوں کو پاکستان میں ایک اچھی تعلیم ملی، اور میں اپنے پاکستانی بھائیوں کا شکرگزار ہوں۔ میں تمام افغان بچوں کے لیے تعلیم اور امن کا خواہاں ہوں۔"

عبداللہ، جو اپنے دو بچوں کے ساتھ افغانستان لوٹ رہے تھے، نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ خان کو افغان بچوں کی تعلیم کے لیے بات کرتے سن کر خوش ہیں۔

عبداللہ نے کہا، "میں افغان لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مزید سرمایہ کاری کی درخواست کرتا ہوں کیوں کہ یہ ہماری لڑکیوں اور مستقبل کی ماؤں کو تعلیم دینے کا وقت ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

مختصر ۔۔ افغان محاجرین کو تعلیم اور مکان کے اشد ضرورت ہے ۔ وسلام

جواب

افغان اچھے لوگ ہیں

جواب