سفارتکاری

پومپیو کا دورۂ پاکستان تجدیدی روابط کی نوید لایا ہے

از ضیاء الرحمان

امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو 5 ستمبر کو اسلام آباد میں پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کرتے ہوئے۔ [ٹوئٹر/وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو]

امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو 5 ستمبر کو اسلام آباد میں پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کرتے ہوئے۔ [ٹوئٹر/وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو]

اسلام آباد -- سرکاری حکام اور تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے بدھ (5 ستمبر) کو اسلام آباد کے دورے نے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تناؤ کی شدت کو کم کرنے میں مدد دی ہے۔

پچھلے ماہ پاکستان میں نئی حکومت منتخب ہونے کے بعد یہ واشنگٹن کی جانب سے پہلا اعلیٰ سطحی دورہ تھا۔

پومپیو، جو چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جو ڈنفورڈ کے ہمراہ تھے، نے لگ بھگ پانچ گھنٹے اسلام آباد میں قیام کیا، جس کے دوران امریکی وفد نے نومنتخب وزیرِ اعظم عمران خانسے ملاقات کی۔

وفد نے دیگر اعلیٰ عسکری اور سیاسی قائدین سے بھی ملاقات کی، جن میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی شامل تھے۔

امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو (بائیں) اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف چیئرمین جنرل جو ڈنفورڈ 5 ستمبر کو پاکستان پہنچے۔ [ٹوئٹر/وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو]

امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو (بائیں) اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف چیئرمین جنرل جو ڈنفورڈ 5 ستمبر کو پاکستان پہنچے۔ [ٹوئٹر/وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو]

وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہیدر نورت نے ایک بیان میں کہا کہ اسلام آباد میں، پومپیو نے "پاکستان کو اس امر کی ضرورت سے آگاہ کیا کہ وہ علاقائی امن و استحکام کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف پائیدار اور فیصلہ کن اقدامات کرے۔"

قریشی نے کہا کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان سفارتی تناؤ پومپیو کے دورۂ اسلام آباد کے بعد کسی حد تک کم ہو گیا ہے۔

قریشی نے صحافیوں کو بتایا، "پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنی پالیسیوں کو ایک نئی روشنی میں دیکھنا اور ان پر نظرِ ثانی کرنا چاہتا ہے اور ایک ایسی سوچ اپنانا چاہتا ہے جس میں اس کے ہمسائے بھی شامل ہوں۔"

بہتر تعلقات کو پروان چڑھانا

اگرچہ سنہ 1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد سے واشنگٹن اسلام آباد کا ایک اہم اتحادی رہا ہے، دونوں کے درمیان تعلقات میں گزشتہ تین دہائیوں میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔

25 جولائی کو اپنے انتخاب کے بعد، خان نے ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے قوم سے اپنے فتح کے خطاب میںوعدہ کیا تھا کہ ان کی حکومت امریکہ کے ساتھ ایک 'متوازن' تعلق رکھے گی۔

وہ تجزیہ کار، جنہوں نےواشنگٹن کے لیے خان کے مصالحتی مؤقف کو سراہا تھا، کہتے ہیں کہ پومپیو کا حالیہ دورۂ پاکستان دنوں ممالک کے درمیان حال ہی میں کشیدہ ہونے والے تعلقات کی 'از سرِ نو تشکیل' کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔

لاہور کے مقامی سیاسی تجزیہ کار، ابراہیم قاضی، جو پاکستان کے خارجہ تعلقات کا مطالعہ کرتے ہیں، نے کہا، "امریکہ نے بلاجھجھک پاکستان کو تسلیم کیا اور ہمیں اس وقت مدد فراہم کی جب ہمیں تقسیم کے بعد دولت کی تقسیم پر ہندوستان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے سخت ضرورت تھی۔"

انہوں نے کہا کہ حتیٰ کہ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد، واشنگٹن نے دہشت گردی کے خلاف امریکی قیادت میں جنگ کے اندر پاکستان کو بڑا غیر-نیٹو اتحادی قرار دیتے ہوئے پاکستان کو اپنایا، جس میں پاکستان نے افغانستان کے اندر جنگ کے لیے زمینی، فضائی اور سمندری راستے فراہم کرتے ہوئے سہولت کاری کی۔

قاضی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "[امریکہ نے] پاکستان کو [پاکستان کی آزادی کے بعد سے] بہت زیادہ مقدار میں امداد [عسکری اور سویلین دونوں] فراہم کی ہے جس کی مالیت کا اندازہ 78 بلین ڈالر (9.6 ٹریلن روپے) ہے۔"

قاضی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پاکستان سرد جنگ میں ایک اہم امریکی اتحادی رہا، لیکن ۔۔۔ جب پاکستان چین کے قریب ہو گیا تو امریکہ نے ہندوستان اور پاکستان کے لیے اپنی علاقائی سوچ کو تبدیل کر لیا۔"

انہوں نے کہا، تاہم، پومپیو کا حالیہ دورہ دونوں ممالک کو ایک اچھا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے تناؤ ختم کریں، روابط کو از سرِ نو تشکیل دیں اور اہم علاقائی امور پر تعاون کریں۔

افغانستان پر پاکستان کا مؤقف

متعدد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاک-امریکہ روابط میں حالیہ خرابی کی بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ افغان تنازعہ پر پاکستان کی پالیسی ہے۔

امریکی اور افغان دونوں حکام نے بارہا پاکستان کو افغان طالبان کو پناہ گاہیں اور اعانت کا نیٹ ورک فراہم کرنے پر موردِ الزام ٹھہرایا ہے جو باقاعدگی کے ساتھ نیٹو اور افغان افواج پر حملے کرتے ہیں۔

اسلام آباد نے ایسے الزامات کو مسترد کیا ہے، یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ پاکستانی دہشت گرد گروہ جیسے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان کے سرحدی علاقوں میں روپوش ہیں اور اس علاقے کوپاکستان کے اندر حملے کرنے کے لیےاستعمال کرتے ہیں۔

پچھلے ہفتے، واشنگٹن نے دہشت گرد گروہوں کے لیے پاکستان کی بے عملی کا حوالہ دیتے ہوئے، پاکستان کو 300 ملین ڈالر (37 بلین روپے) عسکری امداد معطل کرنےاور اس سرمائے کو دیگر مقاصد کے لیے "ری پروگرام" کرنے کے ارادے کا اعلان کیا تھا۔

کچھ افغان سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں طالبان کے حملوں، بشمول صوبہ غزنی میں پانچ روزہ محاصرہ، میں اضافے کی وجہ پومپیو کا دورۂ اسلام آباد اہمیت کا حامل ہے۔

کنڑ کے مقامی قبائلی عمائد اور تجزیہ کار، شریف اللہ شینواری، جو پاک-افغان تعلقات پر نظر رکھتے ہیں، نے کہا، "پاکستان کو شامل کیے بغیر، افغانستان میں امن کی کوششیں ناممکن ہوں گی۔"

شینواری نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "وزیرِ اعظم بننے کے بعد، [عمران] خان نے پومپیو کے دورے سے قبلسلامتی کے امور پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیےباجوہ کے ساتھ تین طویل ملاقاتیں کی ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت پومپیو سے ملاقات کرتے ہوئے ایک ہی صفحے پر لگتی ہے۔ یہ ایک اچھا شگون ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اس مکالہ میں بمشکل ہی کچھ نیا ہے۔ بغیر کسی کارآمد تجزیہ کے فقط حقائق کا تذکرہ ہے۔

جواب