معاشرہ

مخنث پاکستانی ایک روشن مستقبل کی امید کر رہے ہیں

اشفاق یوسف زئی

مخنث پاکستانی 20 اگست کو پشاور میں نازو، جو کہ ایک مخنث خاتون تھی، کے قتل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ]بلو وین[

مخنث پاکستانی 20 اگست کو پشاور میں نازو، جو کہ ایک مخنث خاتون تھی، کے قتل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ]بلو وین[

پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) میں ایک مخنث خاتون کے سفاکانہ قتل نے پاکستان میں مخنث افراد کے خلاف عدم برداشت اور بڑھتے ہوئے تشدد اور ایذا رسانی پر روشنی ڈالی۔

پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک مخنث خاتون نازو، کو 16 اگست کو شہر میں ایک رقص کی محفل میں فن کا مظاہرہ کیے جانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ پیشہ ورانہ رقص ان چند پیشوں میں سے ایک ہے جو پاکستانی مخنثوں کے لیے کھلے ہیں۔

ایک دن بعد، پولیس نے اس کے مبینہ قاتل اور ایک اس کے ایک ساتھی کو گرفتار کر لیا۔

نازو 2015 سے کے پی میں ہلاک کیے جانے والی 62ویں مخنث تھی۔ یہ بات پشاور سے تعلق رکھنے والے فَعالِيَت پَسَند گروہ ٹرانسایکشن پاکستان نے بتائی جو مخنث افراد کے حقوق کی حمایت کرتا ہے۔

پاکستان کی مخنث آزاد امیدوار ندیم کشش (دائیں) جنہوں نے پارلیمانی نشست کے لیے عام انتخابات میں حصہ لیا، 3 جولائی 2018 کو اسلام آباد میں اپنے انتخانی حلقے میں انتخابی مہم کے دوران پمفلٹ تقسیم کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "مجھے ایک موقع دیں"۔ ان کی جدوجہد اقتدار کے لیے نہیں بلکہ قبول کیے جانے کے لیے ہے کیونکہ مخنثوں نے حالیہ انتخابات میں تاریخی بولی لگائی ہے۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

پاکستان کی مخنث آزاد امیدوار ندیم کشش (دائیں) جنہوں نے پارلیمانی نشست کے لیے عام انتخابات میں حصہ لیا، 3 جولائی 2018 کو اسلام آباد میں اپنے انتخانی حلقے میں انتخابی مہم کے دوران پمفلٹ تقسیم کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "مجھے ایک موقع دیں"۔ ان کی جدوجہد اقتدار کے لیے نہیں بلکہ قبول کیے جانے کے لیے ہے کیونکہ مخنثوں نے حالیہ انتخابات میں تاریخی بولی لگائی ہے۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

مخنث برداری کے ارکان 14 اگست 2017 کو پشاور پریس کلب میں پاکستان کا یومِ آزادی منا رہے ہیں۔ ]قاسم یوسف زئی[

مخنث برداری کے ارکان 14 اگست 2017 کو پشاور پریس کلب میں پاکستان کا یومِ آزادی منا رہے ہیں۔ ]قاسم یوسف زئی[

مردان سے تعلق رکھنے والی ایک مخنث خاتون شبانہ نے کہا کہ مخنث افراد کو اکثر ان محفلوں میں ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں انہیں رقص کرنے کے لیے ملازم رکھا جاتا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "تقریبات میں آنے والے رقص دیکھتے ہیں مگر ہماری عزت نہیں کرتے"۔ انہوں نے کہا کہ مجرم تقریبات سے رات کو دیر سے واپس آنے والے مخنث افراد کو اکثر لوٹ لیتے ہیں اور اگر وہ مزاحمت کریں تو انہیں کبھی کبھی ہلاک بھی کر دیتے ہیں۔

نظر انداز کی جانے والی برادری

سوات وادی سے تعلق رکھنے والی ایک مخنث خاتون شاہین بیگم نے کہا کہ مخنث افراد کے خاندانوں کی اکثریت نے ان سے قطع تعلق کر لیا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ نازو کی باقیات کو ایدھی فاونڈیشن (پاکستان کا سب سے بڑا سماجی فلاحی ادارہ) نے دفنایا تھا کیونکہ اس کے خاندان نے لاش کو لینے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ "یہ ہمارے سب لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے اور ہماری دوہری مشکلات مستقل ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہمیں معاشرے میں جن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان سے ہم انتہائی مایوس ہوئے ہیں"۔

ایک مخنث خاتون، فرزانہ جو حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن بھی ہیں، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم تشدد کے حالات میں رہتے ہیں کیونکہ حکومت یا معاشرے کی طرف سے کوئی مدد حاصل نہیں ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "کوئی بھی مشکل حالات میں مخنث پاکستانیوں کی مدد نہیں کرتا ہے۔ ہمیں ہر جگہ خطرات کا سامنا ہے۔ محفلوں کو منظم کرنے والے ہمیں تقریبات میں بلاتے ہیں مگر ہمیں مارتے، بلیک میل کرتے اور لوٹتے ہیں"۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے قبائلی این جی اوز کے کنسورشیم کے زار علی خان نے پاکستان میں مختلف اقسام کے تعصب پر افسوس کا اظہار کیا جن کا سامنا پاکستان میں مخنث افراد کو کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مخنث افراد کو اکثر اس وقت ہسپتالوں میں مناسب علاج مہیا نہیں کیا جاتا جب وہ وہاں جاتے ہیں اور وہ قابلِ علاج بیماریوں سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "انہیں مفت طبی سہولیات فراہم کی جانی چاہیں جن میں ایچ آئی وی/ ایڈز کی ادویات تک رسائی بھی شامل ہے"۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو فوری طور پر مخنث افراد کی بہبود میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے اور ان کے لیے فلاحی پروگراموں کو شروع کرنا چاہیے"۔

مستقبل کی امید

پشاور کے بلیو وائنز ویمنز ہیلتھ ایڈوکسی گروپ کے پروگرام افسر اور ٹرانس ایکشن کے بانی قمر نسیم نے کہا کہ نازو کے قتل کے باوجود، انہیں امید ہے کہ کے پی حکومت کی طرف سے مخنث افراد کی حفاظت کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے پرامید تھے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کے پی نے گھریلو تشدد (انسداد و حفاظت بل) تیار کیا ہے جس میں مخنث برادری کو بھی شامل کیا گیا ہے مگر اس میں نوآبادکاری، پناہ گاہوں، نفسیاتی اور سماجی یا قانونی امداد کی کوئی بھی شق موجود نہیں ہے"۔

اس قانون کو کے پی اسمبلی سے منظوری کا انتظار ہے۔

نسیم نے کہا کہ ابھی تک اس سال کے دوران، پاکستانی سرگرم کارکنوں نے مخنث افراد کے خلاف گھریلو تشدد اور بیرونی تشدد کے 480 واقعات ریکارڈ کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب اور کے پی کی حکومتوں نے انسانی حقوق کی ایک پالیسی بنائی ہے جو مخنث افراد کو تحفظ فراہم کرتی ہے مگر ان صوبوں کی تمام ڈسٹرکٹس میں ابھی بھی مخنث شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات موصول ہوتی ہیں۔

ایک خامی مخنث افراد کے خلاف تشدد کو ختم کرنے کے لیے قومی سطح کی کوششوں کی کمی ہے۔

نسیم نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ اسے قانون بننے کے لیے ابھی بھی سینٹ کی منظوری کی ضرورت ہے، کہا کہ قومی اسمبلی نے مئی میں تجویز کردہ ٹرانسجینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کی منظوری دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ "یہ قانون مخنث افراد کو ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ بنوانے، جائیداد میں حصہ لینے، اپنی صنف تبدیل کرنے، ملازمت تلاش کرنے، ووٹ دینے اور صحت عامہ تک رسائی وغیرہ کو ممکن بنائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تقریبا 3,000 مخنث گھرانے ہیں جن میں تقریبا 10,000 ارکان ہیں۔ صرف کے پی میں ہی 900 مخنث گھرانے ہیں۔

سماجی حمایت

ٹرانس ایکشن سے تعلق رکھنے والے ایک سرگرم کارکن موسی خان نے کہا کہ گروپ مخنث افراد کو ان کے قانونی حقوق کے بارے میںتعلیم دینے اور ان کی اس بات میں حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ اپنی آواز اٹھائیں۔

تاہم ایک ایسے معاشرے میں جو مخنث شہریوں کو جیلوں میں بند کر دیتا ہے، یہ ایک بہت دشوار چیلنج رہا ہے۔

خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "مخنث افراد، جنہیں مقامی زبان میں ہیجڑا یا خواجہ سرا کہا جاتا ہے، ان لوگوں کے خلاف آواز اٹھانے سے ڈرتے ہیں جو انہیں ہراساں کرتے ہیں کیونکہ سماجی طور پر قبولیت اور تحفظ کی کمی ہے"۔

خان نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ انہیں اکثر "جسم فروشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے، مارا جاتا ہے یا وہ اکثر بازاروں میں بھیگ مانگنا شروع کر دیتے ہیں"، کہا کہ مخنث پاکستانی چاہتے ہیں کہ معاشرہ ان سے اچھوت جیسا سلوک کرنا بند کرے اور انہیں انسانوں کی طرح عزت دے۔

صوابی سے تعلق رکھنے والے سابقہ پولیس افسر حبیب الرحمان نے کہا کہ مخنث افراد کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے تحریک دینا ایک خوش آئند پیش رفت ہے اور یہ بہتر مستقبل کے لیے امید کا باعث ہے۔

انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ ثقافتی، مذہبی اور دیگر مشکلات ابھی بھی انہیں عزت اور ممکنہ مواقع سے محروم رکھتی ہیں، کہا کہ "مخنث افراد کے حقوق کے لیے آگاہی موجود ہے اور حکام اس برادری کی حفاظت کے لیے قوانین کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں"۔

پشاور سے تعلق رکھنے والی مخنث خاتون جویریہ نے مخنث افراد کے مصائب پر روشنی ڈالنے کے لیے ذرائع ابلاغ اور غیر حکومتی تنظیموں کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایسی کوششیں معاشرے کو حساس بنائیں گی کہ وہ برادری سے عزت کا سلوک کریں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہمیں جس ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اسی وقت ختم ہو گی جب ہم متحد ہوں گے۔ ہماری برادری کو کاروبار شروع کرنے کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ عزت سے اپنی روزی روٹی کما سکیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500