سلامتی

عمران خان کی نئی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے 4 'ایز' کا وعدہ

از ضیاء الرحمان

گزشتہ دسمبر میں کراچی میں ہونے والے سول سوسائٹی کے طالبان جنگجوؤں کی بربریت کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرے کی فائل فوٹو۔ درمیان والے بینر پر لکھا ہے، "پاکستان اور طالبان اکٹھے نہیں رہ سکتے۔" [ضیاء الرحمان]

گزشتہ دسمبر میں کراچی میں ہونے والے سول سوسائٹی کے طالبان جنگجوؤں کی بربریت کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرے کی فائل فوٹو۔ درمیان والے بینر پر لکھا ہے، "پاکستان اور طالبان اکٹھے نہیں رہ سکتے۔" [ضیاء الرحمان]

کراچی -- پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی نومنتخب حکومت لاتعداد اندرونی و بیرونی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں، جن میں سے ملک میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا طویل عرصے کا مسئلہ کچھ کم نہیں ہے۔

خان نے19 اگست کو ٹیلی وژن پر نشر ہونے والا ایک، کثیر الجہت خطابکیا تھا جس میں انہوں نے حکومت کے اصلاحاتی منصوبوں، بدعنوانی کے خاتمے اور انسانی ترقی کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اپنی انتخابی مہم کے بہت سے وعدوں کو آگے بڑھاتے ہوئے، خان نے ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ کیا ہے، جو مدینہ کی طرز پر بنائی جائے گی، اور انہوں نے ایسے حساس موضوعات پر لب کشائی کی جن کی ان کے پیش روؤں نے شاذونادر ہی نشاندہی کی ہو، بشمول بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی اور ماحولیاتی تبدیلی۔

اگرچہ تجزیہ کاروں اور ناقدین نے نشاندہی کی ہے کہ خان نے اس امر پر گفتگو نہیں کی کہ ان کی حکومت ملک میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی سے کیسے نمٹے گی، ان کی جماعت، پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)، نے اپنے سنہ 2018 کے منشور میں انسدادِ دہشت گردی کی قومی پالیسی پر گفتگو کی تھی۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان (بائیں) 15 جولائی کو کوئٹہ میں اسلم رئیسانی کے ساتھ دعا مانگتے ہوئے۔ اسلم رئیسانی سراج رئیسانی کے بڑے بھائی ہیں، بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار جو 13 جولائی کو مستونگ میں خودکش بم دھماکے میں شہید ہو گئے تھے۔ [بنارس خان / اے ایف پی]

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان (بائیں) 15 جولائی کو کوئٹہ میں اسلم رئیسانی کے ساتھ دعا مانگتے ہوئے۔ اسلم رئیسانی سراج رئیسانی کے بڑے بھائی ہیں، بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار جو 13 جولائی کو مستونگ میں خودکش بم دھماکے میں شہید ہو گئے تھے۔ [بنارس خان / اے ایف پی]

دستاویز میں فوجداری انصاف کے نظام میں اصلاحات کے لیے فوری اقدامات اٹھانے اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے توجہ کو بہتر بنانے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے قوانین پر نظرِثانی کرنے کو کہا گیا ہے۔ جہادی عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے پالیسی چار "ایز": 'منکشف کرنا'، 'اطلاق کرنا'، 'خارج کرنا' اور 'تعلیم دینا' کے طریقۂ کار کو اجاگر کرتی ہے۔

اسلام آباد کے مقامی تھنک ٹینک پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (پپس) کے ڈائریکٹر، محمد عامر رانا نے کہا، "پہلا حصہ فعال اور غیر فعال دہشت گردوں کے درمیان روابط کو 'منکشف کرنا' اور باقی ماندہ پر فتح پانا ہے۔ دوسرا حصہ [انسدادِ دہشت گردی کے] نیشنل ایکشن پلان [این اے پی] نیز انسدادِ دہشت گردی پر پاکستان کے بین الاقوامی معاہدوں اور اجتماعات کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا 'اطلاق کرنا' ہے۔"

رانا نے کہا، "تیسرا حصہ متعصب دہشت گردوں کو 'خارج کرنا' ہے، جبکہ چوتھا حصہ دہشت گردی کے مقابلے میں نظریاتی بیانیہ تیار کرتے ہوئے لوگوں جو 'تعلیم دینے' کا مطالبہ کرتا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ خان کی نومنتخب حکومت کو دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے سے جڑی چند ناگزیر مشکلات سے نمٹنا پڑے گا۔

مروت سے گریز کرنا

دہشت گردی اور اس سے متعلقہ اموات میں نمایاں کمی کے باوجودگزشتہ پانچ برسوں میں، عسکریت پسندی ملک میں پروان چڑھنا جاری رکھے ہوئے ہے، جس سے نئی حکومت کے لیے ایک نمایاں مشکل کھڑی ہونے کا خدشہ لاحق ہے۔

خان کی پی ٹی آئی کی سربراہی میں مخلوط حکومت نے نسبتاً امن کے دوران حکومت سنبھالی ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں سابقہ دو حکومتوں، نواز شریف کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ-نواز (2018-2013) کی حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت (2013-2008) کے عرصہ ہائے اقتدار میں دہشت گردی کے خطرات زیادہ تھے۔

بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے تیار کردہ ایک رپورٹ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مجموعی نکتۂ تغیر کو اجاگر کرتی ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں دہشت گردی کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد میں عالمی زوال پذیری کو ظاہر کرتی ہے۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ پر انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2017 میں کہا گیا ہے، "ایک مثبت رجحان میں، افغانستان، نائجیریا، شام اور پاکستان -- جو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر پانچ ممالک میں سے ہیں -- ان میں دہشت گردی سے ہونے والی اموات کی تعداد میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔"

رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے 956 اموات دیکھنے میں آئی ہیں، جو کہ 12 فیصد کمی ہے، رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ سنہ 2006 کے بعد سے اموات کی سب سے کم تعداد ہے۔

اسلام آباد کے مقامی تھنک ٹینک، پپس، نے بھی اپنی 2017 کی سالانہ سیکیورٹی رپورٹ میں دیکھا کہ پاکستان کی داخلی سلامتی کی صورتحال میں بہتری آئی، جس میں پاکستان کے اندر گزشتہ سال کے مقابلے میں دہشت گرد حملوں کی تعداد میں 16 فیصد کمی واقع ہوئی۔

پرتشدد کارروائیوں میں کمی کے باوجود -- خصوصاً سنہ 2013 کے عام انتخابات کے مقابلے میں -- اس سال 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل انتخابی ریلیوں پر بم دھماکوں میں 200 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔

ان حملوں میں13 جولائی کو ایک خودکش بم دھماکہشامل ہے جس میں مستونگ، بلوچستان میں ایک انتخابی ریلی کے دوران سیاستدان سراج رئیسانی شہید ہوئے تھے۔ بم دھماکہ جس کی ذمہ داری "دولت اسلامیہ" (داعش) نے قبول کی تھی، اس میں 149 جانیں گئی تھیں۔

11 جولائی کو ایک اور واقعہ میں، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نےپشاور میں ہونے والے بم دھماکےکی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں کم از کم 21 افراد جاں بحق ہوئے تھے، جن میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مقامی رہنماء ہارون بشیر بلور شہید ہوئے تھے۔

مشکلات برقرار

پپس کی رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ دہشت گردی سے نمٹنے میں پاکستانی قائدین کی جانب سے کچھ اچھی پیش رفت کے باوجود، سلامتی کے بہت سے مسائل پاکستان کے داخلی استحکام کو مشکل میں ڈالنا جاری رکھے ہوئے ہیں اور غیر حل شدہ رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، "ان کے ذہنوں میں چند نئے مسائل پرورش پا رہے ہیں، جیسے کہ خود متعصب بننے والے افراد اور چھوٹے دہشت گرد سیلوں کا ظہور، مذہبی انتہاپسندی کے واقعات میں اضافہ بشمول تعلیمی کیمپسز میں، پاکستانی عسکریت پسندوں کی جانب سے افغانستان [میں] سرحد پار متواتر حملے اور ملک کے کچھ حصوں میں [داعش کے] بڑھتے ہوئے نقوشِ پا اور پاکستانی سرحد کے قریب اس کے افغان جنگجوؤں کا جمع ہونا۔"

کراچی کے مقامی ایک سول سوسائٹی کے کارکن جو طالبان جیسے عسکریت پسندوں کے خلاف مہمات چلاتے ہیں، ابوبکر یوسفزئی نے کہا کہ اگرچی ایسے گروہ نمایاں طور پر کمزور ہو چکے ہیں، پاکستان کو ہنوز خطرات کا سامنا ہے کیونکہ عسکریت پسند اپنی دہشت گرد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یوسفزئی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "گزشتہ کئی برسوں میں پورے ملک میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ہزاروں پاکستانی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بطور وزیرِ اعظم اپنے اس پہلے عوامی خطاب میں خان کو [اپنی حکومت کی] داخلی سلامتی پالیسی کو واضح کرنا اور اس کا اعلان کرنا چاہیئے تھا۔"

مذہبی بنیاد پرستی اور عدم برداشت میں اضافہ ملک کو لاحق ایک اور مشکل ہے، کا اضافہ کرتے ہوئے، یوسفزئی نے کہا کہ، "کالعدم تنظیموں کو دوبارہ ابھرنے سے روکناجو کہ نئے ناموں سے ظاہر ہو جاتی ہیں اور مذہبی منافرت کو فروغ دینے والے گروہوں کے خلاف کارروائی کرنا نئی حکومت کا اولین کام ہونا چاہیئے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 4

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اوغاز بانڈہ: یہ ضلع بٹگرام کا ایک خوبصورت گاؤں ہے۔ یہ بٹگرام سے 8 کلومیٹر شمال مغرب میں، تھاکوٹ کے جنوب میں 14 کلومیٹر، اور تورگھر کے نیچے واقع ہے۔ یہ ’سادات شیرازی‘ کا گاؤں ہے، جو نہایت ذہین اور محنت کش ہیں۔ اس گاؤں نے متعدد ڈاکٹر، انجنیئر، معاشیات دان اور علمائے اسلام پیدا کیے ہیں جو پاکستان میں مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اللہ میرے اس خوبصورت گاؤں کو دشمن کے ناپاک عزائم سے محفوظ رکھے۔ آمین!

جواب

Ye tabdili le k aya h or tabdili ye h k pagal ne mehangai kr di h.khud to helicopter p ash kr rha h or gareeb awam per zulam kr raha h or in se bad duan le raha h

جواب

خوب

جواب

عمران کی قیادت میں پاکستان میں امن اور معیشت میں بہتری اۓ گی بڑے بڑے ڈاکو گھٹنے ٹیک جائیں گے انشا اللہ

جواب