اسلام آباد – پاکستان ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا انتظام کرنے کے لیے بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔
حکومتِ پاکستان نے 2 جون کو ملک میں آبادی کی خوفناک شرحِ نمو سے نمٹنے کے لیے پاپولیشن کمیشن آف پاکستان اور پاپولیشن ٹاسک فورس کی تشکیل کا اعلان کیا۔
آبادی اور گھرانوں کی چھٹی مردم شماری- 2017 کے اعدادو شمار کے حوالہ سے پاکستان اکنامک سروے 2017-18 کے مطابق، پاکستان کی آبادی کی تعداد 207.7 ملین ہے، جبکہ گھرانے کا اوسط ہجم 6.45 افراد ہے۔ .
1998 میں پاکستان میں صرف 132.35 ملین افراد تھے۔ مردم شماری کے مطابق، 1998-2017 تک ملک بھر میں آبادی میں سالانہ اضافہ کی اوسط شرح 2.4 فیصد رہی۔
ثقافتی، معاشرتی معاشی عناصر
نیو یارک اساسی پاپولیشن کاؤنسل این جی او کی پاکستان کے لیے کنٹری ڈائریکٹر، ڈاکٹر زیبا ساتھار نے کہا کہ پاکستان میں قریب 6 ملین شادی شدہ خواتین کا کہنا ہے کہ یا تو وہ مزید بچوں کی خواہش نہیں رکھتیں یا پیدائش میں وقفہ چاہتی ہیں، لیکن متعدد اپنی خواہشات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے مادہ نومولودوں اور لڑکیوں کی ماضی اور حال میں بلند شرحِ اموات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں "بیٹوں کو فوقیت دینا ابھی تک عیاں ہے"۔
ساتھار نے زیادہ سے کم قوتِ تولید کی جانب تبدیلی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "قوتِ تولید کے قدرتی عمل میں جنس کی فوقیت پیدائش کے نتائج پر اثر ہوتی ہے۔ تاہم ایک ایسے معاشرہ پرجو ابھی تک قوتِ تولید کی منتقلی کے مقابل ہو، یہ امر اثرانداز ہو سکتا ہے کہ آیا اور کِس برابری کے مانع حمل استعمال کا آغاز کیا گیا ہے۔"
انہوں نے بیان کیا کہ ایران، بنگلہ دیش اور انڈونیشا نے پاکستان کے ایک دہائی بعد خاندانی منصوبہ بندی متعارف کرانے کے باوجود 2.5 پیدائشیں فی خاتون کی شرح حاصل کر لی ہے۔ عالمی بینک کی جانب سے 2016 کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں شرحِ تولید 3.5 ہے۔
ایک ممتاز ماہرِ آبادیات اور ایشیا فاؤنڈیشن کے سابق ڈائرئکٹر فرید مدحت نے 10 جون کو پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آبادی کی کثافت میں مسلسل اضافہ کے ساتھ ساتھ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہری مراکز میں جگہ سکڑ گئی ہے۔
انہوں نے کہا، " پاکستان کے صرف 30 فیصد شہری مانع حمل کا استعمال کرتے ہیں ، جو خطے میں کم ترین شرح ہے۔ حیران کن بات نہیں کہ ملک خطے میں سب سے زیادہ شرحِ تولید کا بھی دعویدار ہے۔"
انہوں نے کہا کہ خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام اور نگہداشت صحت کی پالیسیاں خاتون ہیلتھ ورکرز سے چلائی جانے والی مہمّات کے ذریعے اور مردوں اور مذہبی رہنماؤں کی معاونت کی شمولیت سے مانع حمل کی دستیابی اور استعمال پر مرکوز ہوں۔
انہوں نے کہا کہ مانع حمل کا استعمال خواتین کی تعلیم کے ساتھ بڑھتا ہے۔
مدحت نے 2017 کے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (پی ڈی ایچ ایس) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم یافتہ میں سے 43 فیصد کے مقابلہ میں ناخواندہ شادی شدہ خواتین میں سے صرف 25 فیصد مانع حمل استعمال کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا، "بالعموم خواتین کم از کم ایک بچہ ہونے تک مانع حمل استعمال نہیں کرتیں، جس کے بعد بچوں کی تعداد کے ساتھ تیزی سے استعمال میں اضافہ ہوتا ہے۔"
کوششیں جاری ہیں
سیکرٹری محکمہ آبادی منصوبہ بندی پنجاب عنبرین رضا نے جولائی میں پاکستان فارورڈ کو بتایا، "وزارت ترقی و منصوبہ بندی، یو این پاپولیشن فنڈ اور یو این ڈویلپمنٹ پروگرام نے آبادی سے متعلق دیرپا ترقی کے اہداف کے موثر حصول کے لئے جون میں ایک مشترکہ منصوبہ کا آغاز کیا۔"
دیگر کے علاوہ، ان اہداف میں غربت اور بھوک میں کمی شامل ہیں۔
صوبائی حکومت بھی کوشش میں شامل ہوجائیگی، جس میں اشد ضروری اور تجویز کردہ پاپولیشن کمیشن آف پاکستان شامل ہے۔
رضا نے بتایا، ایسی ایجنسی کو وفاقی اور صوبائی حکومت اور نجی شعبے دیگر تمام شراکت داروں کی جانب سے آبادی اور دیرپا ترقی سے متعلق اعلیٰ سطح کا تعاون حاصل ہوگا۔
دریں اثنا محکمہ بہبود آبادی، آگاہی اور اپنے خاندان کو مختصر رکھنے اور آبادی میں اضافے پر قابو پانے میں مدد کے لئے شہریوں کو مائل کرنے کے لئے آرٹ کو اوزار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
ایسی سرگرمیاں آبادی سے متعلق ترقیاتی منصوبے وضع کرنے، پروگرام اور ان سے متعلق مسائل کے حل کی اہمیت اور فوری توجہ دلانے کے ہدف میں محکمہ بہبود آبادی کی مدد کرتی ہیں۔
"مواصلات کی حکمت عملی کے اوزار آبادی کے درمیان شعور کو فروغ دینے اور بلند کرنے کا واحد ذریعہ ہیں". رضا نے بتایا، " جہاں خواندگی کم ہے یا جہاں تحریری معلومات وسیع پیمانے پر دستیاب نہیں ہیں آرٹ کی سرگرمیاں بہت اہم ہو سکتی ہیں."
وفاقی سطح پر، وزارت ترقی و منصوبہ بندی نے علما کو، گاؤں اور دیہاتی علاقوں میں آبادی کے انتظام پر جدید طبی اور سائنسی معلومات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ تمام افراد خانہ کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے خاندانی منصوبہ بندی کی تربیت کے لئے بھیجنا شروع کردیا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ روایتی واہمات اور غلط فہمیوں کا سدباب کیا جائےاور اسلام کے مطابق خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے بارے میں آگاہی میں اضافہ کیا جائے.
آبادی کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے حکومت معاشرہ کے مذہبی طبقات کو حاصل اختیار کا فائدہ اٹھانے کے لئے سرگرم ہے، رضا نے بتایا۔ آبادی منصوبہ بندی سے متعلق عوام کی شعوری تربیت کے لئے وزارت پہلے ہی علما اورمختلف مساجد کے اماموں کی خدمات حاصل کرچکی ہے۔
علمائے دین کی شمولیت
جامعہ نعیمیہ لاہور کے مہتمم اعلیٰ مولانا راغب نعیمی نے اگست میں پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ وہ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اسلام اصولی طور پر خاندانی منصوبہ بندی اور تولیدی صحت کے پروگراموں کی منظوری دیتا اور توثیق کرتا ہے، اسلامی دلائل کا استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا، "خاندانی منصوبہ بندی گناہ ہے اور نہ ہی اسلام کے خلاف۔ اسلام کثرت پیدائش سے ماں کی صحت کو لاحق خطرات کے پیش نظر خاندانی منصوبہ بندی اور پیدائش میں وقفہ کی اجازت دیتا ہے۔"
نعیمی نے بتایا، اسلام کا ایک جامع اور مکمل احاطہ کرتا ہوا نقطہ نظر ہے جو خاندانی زندگی کے ہر پہلو بشمول، ماؤں کا دودھ پلانا، پیدائش میں وقفہ، ازدواجی تعلقات اور شادی شدہ زندگی کے برتاؤ کا احاطہ کرتا ہے۔
نعیمی نے بارھویں صدی کے ایک معروف اسلامی مفکر الغزالی کا حوالہ دیا جو، "کسی شخص کی زوجہ کو بچہ کی پیدائش کے خطرہ سے تحفظ یا صرف اس کی خوبصورتی کی حفاظت کے لئے مانع حمل طریقوں کے استعمال کی حمایت کرتے ہیں۔"
انہوں نے بتایا، "امام نے معاشی وجوہات کی بنا پر بھی خاندان کو محدود رکھنے کے لئے خاندانی منصوبہ بندی کی حمایت کی ہے۔"
نعیمی نے بتایا کہ جوڑوں کو مشترکہ طور پر فیصلہ کرنا چاہیئے کہ وہ کتنے بچے اور کب چاہتے ہیں۔
"مانع حمل کے استعمال کی ایک اور اہم وجہ بچوں کی صحت ہے،" انہوں نے بتایا۔ "ایک دودھ پیتے بچے کی موجودگی حمل روکنے کے لئے ایک اہم وجہ ہے۔ ایک نیا حمل شیرخوارگی کی مدت کم کردیتا ہے، جس کے نتیجہ میں دودھ پینے والے بچے کو دیرپا نقصان پہنچتا ہے۔"
قرآن مقدس بھی پیدائش میں وقفہ کی حمایت کرتا ہے، نعیمی نے ایک آیت کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے: اور ماؤں کو پورے دو سال اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلانا چاہیئے۔
انہوں نے بتایا، پاکستان کے علما کو خدشہ ہے کہ آبادی میں اضافے سے ملک کے مستقبل کو خطرہ ہوگا اور معاشرہ کو متحرک کرنے اور عوام کو آبادی اور ترقی سے متعلق مسائل سے آگاہ کرنے کے لئے اپنی سماجی اور معاشرتی ذمہ داری کومحسوس کرتے ہیں۔
نعیمی نے بتایا، تاہم، والدین کی ذمہ داری انصاف مہیا کرنا اور وسائل کو یکساں طور پر اپنے بچوں میں تقسیم کرنا ہے تاکہ ان کی معاشرہ کے اچھے رکن کے طور پر پرورش ہو سکے۔