انتخابات

خاتون ووٹ دہندگان میں اضافہ پاکستانی جمہوریت کے نئے دور کا نقیب ہے

محمد آحل

25 جولائی 2018 کو لاہور میں خواتین ووٹ ڈالنے کے لیے ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر قطار میں کھڑی ہیں۔ ]عارف علی/ اے ایف پی[

25 جولائی 2018 کو لاہور میں خواتین ووٹ ڈالنے کے لیے ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر قطار میں کھڑی ہیں۔ ]عارف علی/ اے ایف پی[

پشاور -- اس سال کے نئے انتخابات ووٹ دینے کے انداز میں ایک ںئے دور کے نقیب ثابت ہوئے کیونکہ بہت سی پاکستانی خواتین، جنہیں ثقافتی اور سماجی قاعدوں نے اس سے پہلے ووٹ ڈالنے سے روکے رکھا تھا، پہلی بار ووٹ ڈالنے کے لیے گئیں۔

بہت سی خواتین کے لیے، عام انتخابات میں ووٹ ڈالنا کبھی صرف ایک خواب ہی تھا۔ مذہبی انتہاپسندوں، سخت سماجی و ثقافتی قواعد اور یہاں تک کہ مقامی سیاسی جماعتوں کی طرف سے اتفاق کردہ پابندیوں کا اکثر مطلب یہ ہی ہوتا تھا کہ خواتین شاذ و نادر ہی ووٹ دینے کے لیے اپنے گھروں سے باہر آتی تھیں۔

خواتین پاکستان کے عام انتخابات، جو 25 جولائی کو منعقد ہوئے، کے اہل ووٹ دہندگان کا 44.1 فیصد تھیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے اپنی مدد فراہم کی اور عام انتخابات میں قومی اسمبلیوں کے لیے انتخاب میں حصہ لینے والی خواتین کے لیے 5 فیصد کوٹہ لازمی قرار دیا، اس کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی خواتین کے لیے نشستیں مخصوص کیں۔ ای سی پی نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ وہ ایسے حلقہ ہائے انتخاب جہاں سے خواتین ووٹ دہندگان کل ووٹوں کا 10 فیصد سے کم ہوں گی ان کے نتائج کو کالعدم قرار دے دے گا۔

مہمند ڈسٹرکٹ میں خاتون ووٹ دہندگان 25 جولائی کے عام انتخابات کے دوران ووٹ ڈالنے کے لیے قطار میں کھڑی ہیں۔ ]عالمگیر خان[

مہمند ڈسٹرکٹ میں خاتون ووٹ دہندگان 25 جولائی کے عام انتخابات کے دوران ووٹ ڈالنے کے لیے قطار میں کھڑی ہیں۔ ]عالمگیر خان[

ایک خاتون ڈیرہ اسماعیل خان ڈسٹرکٹ میں 25 جولائی کے عام انتخابات کے دوران ووٹ ڈال رہی ہے۔ ]محمد آحل[

ایک خاتون ڈیرہ اسماعیل خان ڈسٹرکٹ میں 25 جولائی کے عام انتخابات کے دوران ووٹ ڈال رہی ہے۔ ]محمد آحل[

انسانی حقوق کے مشاہدین، خواتین کے حقوق کے سرگرم کارکنوں اور پاکستانی خواتین نے ان اقدامات کو خوش آمدید کہا اور انہیں خواتین کو مساوی حقوق دینے کی طرف ایک سنگِ میل قرار دیا۔

ملک بھر میں خواتین کی قطاریں دیکھی گئیں

دیر بالا ڈسٹرکٹ کے بہت سے حصوں میں خواتین نے 1977 کے بعد پہلی بار ووٹ ڈالا۔

سماء ٹی وی سے تعلق رکھنے والی صحافی زاہد جان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ایسا ہی واقعہ ایتھنز کوٹ گاوں میں پیش آیا۔

انہوں نے کہا کہ دیر بالا کے علاقوں سنگور نیہا گادرہ،جگم اور جانیا میں بھی خواتین کی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے کے لیے قطاروں میں کھڑی تھی۔

اے آر وائے نیوز کے ساتھ کام کرنے والی صحافی فوزی خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ، خواتین نے مہمند ڈسٹرکٹ کی بیزی تحصیل میں بھی پہلی بار ووٹ ڈالا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے مقامی قبائلی رسم و رواج اور عسکریت پسندوں کے خطرے نے انہیں ووٹ ڈالنے سے روکے رکھا تھا۔

اس سے مماثل ٹرن آوٹ کوٹکی، جنوبی وزیرستان میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جو کہ تحریک طالبان پاکستان کے مرحوم راہنما حکمت اللہ محسود کا آبائی علاقہ ہے اور یہ 2002 کے بعد پہلی بار ہوا ہے۔ مقامی حکام کے مطابق، سابقہ قبائلی ایجنسی کے دوسرے حصوں میں بھی خواتین نے سخت نگرانی کے تحت اپنے ووٹ ڈالے۔

کوہستان ڈسٹرکٹ، کے پی میں پہلے سالوں کے مقابلے میں زیریں کوہستان، کولیا پالک کوہستان اور کوہستان بالا میں خواتین ووٹروں کا ٹرن آوٹ زیادہ رہا۔

تھر میں خواتین نے ایک سنگِ میل حاصل کیا اور وہاں کے دو حلقہ ہائے انتخاب میں سب سے زیادہ ٹرن آوٹ ریکار کیا گیا جو کہ تقریبا 70 فیصد سے زیادہ تھا۔

وقت کے ساتھ تبدیلی

اس سے پہلے 2013 کے انتخابات میں، سیاسی جماعتوں جن میں جماعت اسلامی (جے آئی) بھی شامل ہے، کو خاتون ووٹ دہندگان کے ساتھ خودسری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا مگر اب حالات مختلف تھے۔

جے آئی کے سربراہ سراج الحق جو حلقہ انتخاب این اے -7 (دیر زیریں) سے قومی اسمبلی کے لیے لڑ رہے تھے اور ہار گئے ہیں، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "جے آئی کا ویمنز ونگ خاتون ووٹروں کو سرگرمی سے قائل کر رہا ہے کہ وہ ووٹ دینے کے لیے آئیں"۔

خواتین کے حقوق کی واچ ڈاگ، عورت فاونڈیشن کی کے پی کی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر شابین ایاز نے کہا کہ "یہ ایک اچھی علامت ہے کہ فاٹا اور دیر کے کچھ علاقوں میں خواتین پہلی بار ووٹ ڈال رہی ہیں جہاں انہیں ماضی میں ایسا کرنے سے روکا گیا تھا"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اس سے مزید کی حوصلہ افزائی ہو گی کہ وہ آگے آئیں۔ خواتین کو علم ہے کہ وہ سماجی اور ثقافتی پابندیوں کو توڑ رہی ہیں۔ یہ ایک حوصلہ افزاء علامت ہے کہ وہ خودمختاری اور برابری کے راستے پر ہیں"۔

کے پی اسمبلی کی کم عمر ترین رکن بننے والی سمیرا شمس نے کہا کہ "اب حالات بدل رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ہمیشہ خواتین کی حوصلہ افزائی کی ہے خصوصی طور پر نوجوان خواتین کی کہ وہ ووٹ دیں اور پی ٹی آئی کی حالیہ فتح جزوی طور پر خواتین کو زندگی کے ہر میدان میں برابری کے حقوق دینے کی اس کی پالیسی کی مرہونِ منت ہے۔

مشکلات ابھی باقی ہیں

اس سال کے انتخابات میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کے باوجود ابھی مشکلات باقی ہیں۔

مثال کے طور پر، اپنے گاوں میں مردوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جن خواتین نے پہلی بار ووٹ دینے کا عہد کیا تھا، انہوں نے آخیر میں حالیہ انتخابات میں اپنے جمہوری حق کو استعمال نہیں کیا اور اس کی وجہ اپنے شوہروں کی طرف سے دھمکیوں کو قرار دیا۔

مرد بزرگوں نے 1947 کے قریب، موہری پور جو کہ ملتان سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، میں خواتین کے ووٹ دینے پر پابندی لگائی تھی جس پر خواتین ابھی تک عمل کر رہی ہیں۔

الیکشن کے حکام کے مطابق، موہری پور میں تقریبا 3,200 خواتین انتخابی رجسٹر میں درج ہیں مگر کسی ایک نے بھی ووٹ نہیں دیا۔

ایک 25 سالہ خاتون تانیا بی بی نے پولنگ اسٹیشن کے پاس سے گزرتے ہوئے، اندر داخل ہوئے بغیر اے ایف پی کو بتایا کہ "ہمیں اپنے شوہروں سے دھمکیاں ملی ہیں کہ اگر ہم نے ووٹ ڈالا تو وہ ہمیں طلاق دے دیں گے"۔

محمد شمشیر نے اے ایف پی کو بتایا کہ "ہم یہاں اپنے ووٹ ڈالنے آئے ہیں مگر ہماری خواتین ہماری پرانی روایت جسے ہم قائم رکھے ہوئے ہیں، کی پاسداری کرتے ہوئے ووٹ ڈالنے نہیں آئیں"۔

یہاں تک کہ ایک وکیل قیصر عباس جنہوں نے خواتین کے ووٹ کے لیے مہم چلائی، نے کہا کہ آخیر میں وہ اپنی اہلیہ کو ووٹ دینے کے لیے پولنگ اسٹیشن لے کر نہیں آئے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے ڈر تھا کہ گاوں کے لوگ میرے خاندان کا بائیکاٹ نہ کر دیں"۔

مقامی این جی او سے تعلق رکھنے والے بسم اللہ ارم نے کہا کہ گاوں کی مسجدوں سے ایسے اعلانات کیے گئے تھے جن میں خواتین کو خبردار کیا گیا تھا کہ وہ ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن پر نہ آئیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500