ملتان -- سنہ 1947 کے آس پاس ملتان کے قریب گاؤں موہری پور میں مردوں نے خواتین کے ووٹ ڈالنے جانے پر پابندی لگا دی تھی۔ خواتین نے اس کے بعد سے اس حکم کو مانا ہے -- اس سال تک، جب پاکستان کے انتخابی قوانین میں تبدیلیاں اور خواتین کے رویئےحرکیات کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
کم از کم، گاؤں میں جامن کے درخت، جس کا سایہ انہیں جھلساتی ہوئی دھوپ میں سایہ فراہم کرتا ہے، کے نیچے مل بیٹھی بہت سی خواتین کو یہ امید ہے۔
آیا کہ مرد جو اے ایف پی کے رپورٹرز کے ساتھ بات چیت کرتی خواتین کو ناراضگی سے گھور رہے ہیں انہیں25 جولائی کو جب قوم ووٹ ڈال رہی ہو گییہ کام کرنے دیں گے، یہ ایک اور سوال ہے۔
31 سالہ نازیہ تبسم نے کہا، "ان کا شائد یہ خیال ہے کہ عورتیں بے وقوف ہیں ۔۔۔ یا یہ ان کے لیے عزت کا مسئلہ ہے۔"
گاؤں کے بزرگوں نے کئی دہائیاں پہلے خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا تھا، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ عوامی پولنگ اسٹیشن پر جانے سے ان کی "بے عزتی" ہو گی۔
10 فیصد خواتین ووٹرز ہونا لازمی
خواتین کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی حمایت حاصل ہے، جس نے اعلان کیا ہے کہ ہر حلقے میں کم از کم 10 فیصد خواتین ووٹرز کا ہونا لازمی ہے؛ بصورتِ دیگر، اس کے نتائج کو کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔
ای سی پی کے مطابق،9.13 ملین خواتین سمیت، لگ بھگ 20 ملین نئے ووٹرز کا اندراج ہوا ہے۔
یہ پاکستان میں حقوقِ نسواں کے لیے لڑی جانے والی طویل جنگ میں ایک اور مرحلہ ہے، تاہم یہ 2013 کے انتخابات، جن میں رجسٹرڈ مرد ووٹروں کی تعداد خواتین سے 11 ملین زیادہ تھی، کے صنفی عدم توازن کو ختم کرنے میں بہت کم کارگر ہے۔
یہ تبدیلی موہری پور جیسے قدامت پسند دیہی علاقوں میں دور تک جانے کے لیے ایک مرحلے کی تشکیل بھی کرتی ہے۔
بہت سی مثالیں ہیں: سنہ 2015 میں لوئر دیر میں بلدیاتی انتخابات میں مردوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا تھا۔ ای سی پی نے فوری طور پر نتیجہ منسوخ کر دیا۔
سنہ 2013 میں گزشتہ عام انتخابات میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے پر ایک عدالت نے دو اور شمال مغربی اضلاع میں مرد عمائدین کو گرفتار کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔
تشدد کا خوف
موہری پور میں، جو کہ صوبہ پنجاب میں واقع ہے، خواتین گھر سے باہر کام کرنے جاتی ہیں اور کچھ تعلیم حاصل کرنے جاتی ہیں، پھر بھی ووٹ ڈالنے کی ممانعت ہے۔
جامن کے درخت کے نیچے بہت سی نوجوان خواتین اپنے حق کو استعمال کرنے کے لیے بیتاب ہیں -- لیکن سبھی نہیں۔
60 سالہ بیوہ نذیراں مائی نے کہا کہ خواتین کے ووٹ ڈالنے کی "رسم" نہیں ہے۔ انہوں نے کہا مجھے روکنے والا کوئی نہیں ہے، لیکن پھر بھی میں ووٹ نہیں ڈالتی کیونکہ اور کوئی بھی نہیں ڈالتا۔"
دیگر کو پرتشدد انتقام کا خوف ہے۔
22 سالہ شمائلہ مجید نے کہا، "اگر وہ اکیلی ووٹ ڈالنے جائیں گی،تو جھگڑا اور بدامنی ہو گیمرد انہیں گالیاں دیں گے اور ماریں پیٹیں گے، تو نہ جانا ہی بہتر ہے،" -- تاہم وہ جتنی زیادہ ہو سکے خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے لے جانے کے لیے پُرعزم تھیں۔
حتیٰ کہ موہری پور کی اکلوتی خاتون کونسلر، ارشاد بی بی -- جو ان قوانین کے تحت منتخب ہوئی تھیں کہ ہر دیہی کونسل میں کم از کم ایک خواتین ہونی چاہیئے -- نے کبھی بھی ووٹ نہیں ڈالا۔
جب وجہ پوچھی گئیم تو انہوں نے اپنی جگہ بات کرنے کے لیے اپنے شوہر، ظفر اقبال، کو بلا لیا۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، "ہمارے بزرگوں نے یہ روایت ڈالی تھی ۔۔۔ ہم آج تک اس کو نبھا رہے ہیں۔"
روایات کو توڑنا
اخباری کالم نگار حاجرہ ممتاز نے کہا، "کسی بھی مہذب معاشرے میں، نصف آبادی کے حقوق سلب نہیں ہونے چاہیئیں۔"
لیکن مقامی سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ وہ بے بس ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے رضا حیات ہراج نے کہا، "میں ان کی روایت کو نہیں توڑ سکتا -- اس گاؤں کے لوگوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنی خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت کب دیں گے۔"
ضلع کونسل کی رکن، بسم اللہ نور، جنہوں نے جامن کے درخت کے نیچے ملاقات کا اہتمام کیا تھا، نے کہا کہ مرد ضدی ہیں۔
انہوں نے کہا، "میں سنہ 2001 سے کوشش کر رہی ہوں، لیکن کوئی میری نہیں سنتا۔ سنہ 2005 میں، مردوں نے مجھے کہا کہ ان کی خواتین ووٹ نہیں ڈالنا چاہتیں لہٰذا مجھے انہیں مجبور نہیں کرنا چاہیئے۔"
سنہ 2013 میں ایک اور کوشش بھی ناکام ہو گئی۔
نور نے گاؤں کی خواتین سے جو عزم اب سنا ہے وہ انہیں امید کی کرن دیتا ہے --لیکن پیش رفت بہت کمزور ہے۔
سنہ 2015 میں، ایک خاتون، فوزیہ طالب، موہری پور میں بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے والی واحد خاتون بنیں۔ ان کا سماجی مقاطعہ کر دیا گیا۔
اب، وہ پُراعتماد نہیں ہیں کہ 25 جولائی کو وہ جن سیاستدانوں کو ووٹ ڈالیں گی وہ علاقے کے لیے جو کچھ کریں گے وہ اس خلاف ورزی کا مستحق ہو گا بھی یا نہیں۔
انہوں نے کہا، "میں دیکھوں گی۔"