انتخابات

پاکستان کی انتخابی مہمّات امن و سلامتی کے ساتھ جاری

ضیاء الرّحمٰن

30 جون کو کوئٹہ میں پاکستانی کارکنان آنے والے عام انتخابات کے لیے پوسٹر تیار کر رہے ہیں۔ رواں انتخابی دور میں انتخابی کارکنان پر خال ہی حملے ہوئے ہیں۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

30 جون کو کوئٹہ میں پاکستانی کارکنان آنے والے عام انتخابات کے لیے پوسٹر تیار کر رہے ہیں۔ رواں انتخابی دور میں انتخابی کارکنان پر خال ہی حملے ہوئے ہیں۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

کراچی – پاکستان میں 25 جولائی کو طے شدہ آنے والے عام انتخابات کے لیے ایک نسبتاً پرامن مہم دیکھی جا رہی ہے، جو کہ گزشتہ انتخابات کے متضاد ہے، جن میں طالبان اپنی مخالفت کرنے والی آزاد خیال سیاسی جماعتوں کو ہدف بناتے نظر آئے۔

نفاذِ قانون کی ایجنسیوں کی جانب سے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت پرتشدد گروہوں پر ایک کامیاب کریک ڈاؤن بطورِ کل عدم سلامتی اور سیاسی تشدد میں نمایاں کمی کا باعث بنا ہے۔

2007 سے اب تک ٹی ٹی پی سیاسی رہنماؤں، انتخابی کارکنان اور امّیدواران پر حملوں کی ذمہ دار رہی ہے۔ 2013 میں گزشتہ عام انتخابات کے دوران ایسے حملے عام تھے اور انتخابات سے کئی ہفتے پہلے بڑھ گئے تھے۔

اس دوران، ٹی ٹی پی کی شوریٰ کاؤنسل نے اعلان کیا کہ وہ ان سیکولر سیاسی جماعتوں کو ہدف بنائے گی جو گزشتہ اتحادی حکومت کا جزُ تھیں اور سوات، سابقہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختونخوا کے دیگر حصّوں میں عسکری آپریشن میں ملوث تھیں۔

3 جولائی کو کراچی میں ایک انتخابی ریلی کے دوران عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ شاہی سیّد خطاب کر رہے ہیں۔ 2013 کے انتخابات کے دوران طالبان نے اے این پی، پی پی پی اور ایم کیو ایم جیسی آزاد خیال اور سیکولر جماعتوں کو ہدف بنایا۔ [ضیاء الرّحمٰن]

3 جولائی کو کراچی میں ایک انتخابی ریلی کے دوران عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ شاہی سیّد خطاب کر رہے ہیں۔ 2013 کے انتخابات کے دوران طالبان نے اے این پی، پی پی پی اور ایم کیو ایم جیسی آزاد خیال اور سیکولر جماعتوں کو ہدف بنایا۔ [ضیاء الرّحمٰن]

2 جولائی کو کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا ایک حامی ایک انتخابی پوسٹر تیار کر رہا ہے۔ [رضوان تبسم/اے ایف پی]

2 جولائی کو کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا ایک حامی ایک انتخابی پوسٹر تیار کر رہا ہے۔ [رضوان تبسم/اے ایف پی]

’بھیانک خواب‘ سے بے خوف و خطر مہم تک

سیکولر اور آزاد خیال سمجھی جانے والی عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے ٹی ٹی پی کے خلاف حکومتی آپریشن کی حمایت کی تھی، اور نتیجتاً متواتر تشدد کا سامنا کرتے ہوئے انہیں اپنی انتخابی مہمات محدود کرنا پڑی۔

اسلام آباد اساسی سیکیورٹی تھنک ٹینک پاکستان ادارہ برائے علومِ امن کے مطابق، "یکم جنوری اور 15 مئی، 2013 کے درمیان پاکستان بھر میں تشدد کے 97 واقعات کے علاوہ، سیاسی رہنماؤں، کارکنان اور ووٹران پر۔۔۔ 148 رپورٹ کیے گئے حملوں میں 298 افراد نے جان کی بازی ہار دی اور 885 دیگر زخمی ہوئے۔

اے این پی سندھ کے ترجمان حمید اللہ خٹک نے کہا کہ 2011 کے وسط سے ستمبر 2013 تک ٹی ٹی پی نے کراچی میں اے این پی کے 100 سے زائد ارکان کو قتل کیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "گزشتہ انتخاب ہماری جماعت کے لیے ایک بھیانک خواب تھا، جب طالبان نے ہمارے انتخابی امّیدواران کو قتل کیا اور شہر میں ہماری ریلیوں پر بمباری کی۔"

خٹک نے کہا کہ تاہم، اب اے این پی ملک بھر میں بلا خوف و خطر اپنی مہم چلا رہی ہے، "جس کی بڑی وجہ حکام کی جانب سے شہر میں طالبان عسکریت پسندوں اور دیگر تشدد پسند گروہوں کے خلاف کامیاب کریک ڈاؤن ہے۔"

کراچی سے تعلق کرنے والے ایک سیکیورٹی تجزیہ کار رئیس احمد نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "اب طالبان جا چکے ہیں۔ اس مرتبہ [رائے دہندگان] باہمّت اور پر اعتماد طور پر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔"

سیکورٹی میں اضافہ

پاکستانی حکام پولنگ اسٹیشنز پر سیکورٹی قائم رکھنے کے لئے کڑی محنت کر رہے ہیں اور آنے والے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے لئے 86 نکات پر مبنی کوڈ آف کنڈکٹ جاری کیا ہے۔

الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) نے 14 جون کو فیصلہ کیا ہے کہ فوجی اہلکار پولنگ اسٹیشنز کے باہر اور اندر تعینات کیے جائیں گے۔ 27 جون سے قانون نافذ کرنے والے اہلکار بیلٹ پیپر کی چھپائی کے عمل کی سیکورٹی یقینی بنانے کے لئے تعینات کردیٔے گئے ہیں۔

ای سی پی نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ20,000 حساس پولنگ اسٹیشنزپر سی سی ٹی وی کیمرہ بھی نصب کیے جائیں گے۔

ای سی پی نے بتایا ہے کہ سیکورٹی مسائل سے متعلق وہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے قریبی تعاون سے کام کریں گے۔

ڈان نے 3 جولائی کو خبر دی ہے کہ نیکٹا نے خبردار کیا ہے کہ بعض سیاسی شخصیات کو عام انتخابات سے پہلے دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے.

نیکٹا کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پاکستان فارورڈ کو بتایا ہے کہ "کاؤنٹر ٹیررازم باڈی کو مختلف انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے بعض سیاسی رہنماؤں پر حملے کے بارے میں اطلاعات موصول ہوئی ہیں خاص طور پر ٹی ٹی پی کے سربراہ مولانا فضل اللہ کی حالیہ ہلاکت کے بعد۔"

انہوں نے بتایا، "تاہم، دھمکیاں اتنی سنجیدہ نہیں ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سیاستدانوں کی حفاظت کر رہے ہیں."

پنجاب کے انسپکٹر جنرل سلمان کلیم امام نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ امن و امان کے ماحول میں آزاد اور منصفانہ انتخابات سب سے اولین ترجیح ہیں.

انہوں نے بتایا، اس کوشش کے لئے تمام دستیاب ذرائع استعمال میں ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ انتخابی مہم کے دوران آتشیں ہتھیاروں کی نمائش اور خوشی میں کی جانے والی فائرنگ برداشت نہیں کی جائے گی۔

"قانون کی خلاف ورزی کی کوشش کرنے والوں کے خلاف اقدامات جاری رہیں گے،" امام نے بتاتے ہوئے مزید کہا کہ پولیس گشت بشمول ایلیٹ ڈالفن فورس جسے اسٹریٹ کرائم سے لڑنے کی ذمہ داری دی گئی ہے، سیکورٹی یقینی بنانے کے لئے تیار ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500