اسلام آباد -- وکلاء نے کہا کہ سابق پاکستانی وزیرِ اعظممیاں محمد نواز شریفکو جمعہ (6 جولائی) کے روز اسلام آباد کی ایک انسدادِ بدعنوانی عدالت نے 10 سال سزائے قید سنائی ہے، جس سے25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات سے قبلپہلے ہی سے مشکلات کی شکار ان کی جماعت کی انتخابی مہم کو شدید دھچکا لگا ہے۔
نواز شریف کو وزیرِ اعظم کے طور پر اپنی تیسری مدتِ اقتدار سے گزشتہ برس سپریم کورٹ کی جانب سےبدعنوانی پر تحقیقات کے بعدنااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
وزیرِ صفائی محمد اورنگزیب نے اے ایف پی کو بتایا کہ لندن میں ایک انتہائی مہنگی جائیداد کی خریداری کے معاملے پر، "[نواز شریف کو] 10 سال سزائے قید اور 8 ملین پاؤنڈ [10 ملین ڈالر یا 1.3 بلین روپے] جرمانے کی سزا دی گئی ہے۔"
وزیرِ استغاثہ سردار مظفر عباس نے کہا کہ عدالت نے اس جائیداد کو بحقِ سرکار ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔
نواز شریف اس وقت لندن میں ہیں، جہاں ان کی زوجہ کا سرطان کا علاج ہو رہا ہے۔ فیصلے نے اس بات پر فوری سوالات اٹھا دیئے ہیں کہ آیا وہ پاکستان واپس آئیں گے، جس پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ عام انتخابات سے قبل "مشکل صورتحال" سے دوچار ہیں۔
نواز شریف کو سیاست سے تاحیات نااہل کر دیا گیا ہے اور انہوں نے اپنی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) کی صدارتاپنے بھائی، شہباز کو سونپ دی تھی، جو کہ تاریخ میں دوسری بار جمہوری انتقالِ اقتدار سے قبل جماعت کی مہم کی سربراہی کر رہے ہیں۔
فیصلے سے کچھ ہی دیر بعد ٹیلی وژن پر نشر ہونے والی لاہور میں کی گئی پریس کانفرنس میں شہباز شریف نے کہا، "ہم فیصلہ مسترد کرتے ہیں۔ یہ ناانصافی پر مبنی ہے۔ یہ فیصلہ تاریخ میں سیاہ حروف میں لکھا جائے گا۔"
شریف خاندان اور اس کے حامیوں نے بدعنوانی کے الزامات کو بارہا مسترد کیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ نواز شریف کو طاقتور فوج کی جانب سے سازش کا شکار بنایا گیا ہے۔
بدعنوانی کا تنازعہ گزشتہ برس پاناما کی ایک قانونی فرم موزیک فونسیکا جو کہ دنیا کے بہت سے امیر اور طاقتور فراد کی آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ رکھتی ہے، کی جانب سے 11.5 ملین خفیہ دستاویزات کی اشاعت (پاناما پیپرز) کے بعد کھڑا ہوا تھا۔
نواز شریف کے چار میں سے تین بچوں --مریم، اس کی متوقع سیاسی جانشین،اور اس کے بیٹوں حسن اور حسین -- کو ان دستاویزات میں ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔
عدالت نے مریم شریف کو بھی اس کی غیرموجودگی میں سات سال سزائے قید سنائی ہے۔