سفارتکاری

امریکہ افغان طالبان پر مزید پاکستانی دباؤ کا خواہش مند ہے

اے ایف پی اور پاکستان فارورڈ

ننگرہار صوبہ میں جلال آباد کے مضافات میں، افغان طالبان کے عسکریت پسند 16 جون کو عیدالفطر کے دوسرے دن عارضی جنگ بندی کا جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ ]نور اللہ شیرزادہ/ اے ایف پی[

ننگرہار صوبہ میں جلال آباد کے مضافات میں، افغان طالبان کے عسکریت پسند 16 جون کو عیدالفطر کے دوسرے دن عارضی جنگ بندی کا جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ ]نور اللہ شیرزادہ/ اے ایف پی[

کابل -- امریکہ نے کہا ہے کہ طالبان کی طرف سے افغانستان کے تقریبا 17 سال سے جاری تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات میں شامل ہونے میں ناکامی "ناقابلِ قبول" ہے اور اس نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں پر مزید دباؤ ڈالے۔

امریکہ کی سفیر ایلس ویلس نے یہ تبصرہ ہفتہ (30 جون) کو کابل کے دورے کے دوران کیا جہاں دو ہفتے پہلے غیر مثالی جنگ بندی نے سڑکوں پر بے ساختہ جشن کو جنم دیا جس میں طالبان کے جنگجو اور سیکورٹی فورسز دونوں ہی شامل تھے۔

ویلس پاکستانی حکام سے بات چیت کے لیے پیر (2 جولائی) کو پاکستان پہنچیں۔

ویلس جو کہ وزارتِ دفاع کے بیورو آف ساوتھ اینڈ سینٹرل ایشین افیرز کی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری ہیں نے اخباری نمائںدوں کو بتایا کہ "میرے خیال میں جنگ بندی کے ردِعمل نے ہر کسی میں یہ خواہش جگائی ہے کہ وہ ایک مذاکرات کردہ سیاسی حل کے لیے اپنی کوششوں کو دوبارہ سے شروع کریں"۔

خارجہ سیکریٹری تہمینہ جنجوعہ (بائیں) اور امریکہ کی سفیر ایلس ویلس 2 جولائی کو اسلام آباد میں ملاقات کر رہی ہیں۔ ویلس نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ افغان طالبان پر امن کے عمل میں شرکت کرنے کے لیے مزید دباؤ ڈالے۔ ]حکومتِ پاکستان[

خارجہ سیکریٹری تہمینہ جنجوعہ (بائیں) اور امریکہ کی سفیر ایلس ویلس 2 جولائی کو اسلام آباد میں ملاقات کر رہی ہیں۔ ویلس نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ افغان طالبان پر امن کے عمل میں شرکت کرنے کے لیے مزید دباؤ ڈالے۔ ]حکومتِ پاکستان[

"میرے خیال میں یہ بات زیادہ سے زیادہناقابلِ قبول ہوتی جا رہی ہے کہ طالبان مذاکرات میں حصہ نہ لیں"۔

طالبان نے ابھی تک صدر اشرف غنی کی طرف سے امن مذاکرات کی پیش کش کو نظر انداز کیا ہے۔ اس کی بجائے انہوں نے امریکہ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات پر اصرار کیا ہے جس سے واشنگٹن نے بار بار انکار کیا ہے۔

ویلس نے کہا کہ چونکہ افغان حکومت اور امریکہ پہلے سے طے شدہ شرائط کے بغیر مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار تھے اس لیے اب یہ طالبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا جواب دیں۔

انہوں نے کہا کہ "اس وقت یہ طالبان کے راہنما ہیں۔۔۔ جو افغانستان میں قیام پذیر نہیں ہیں، اور سیاسی مذاکرات کردہ سیاسی معاہدے کی راہ میں رکاوٹ ہیں"۔

پاکستانی عمل کی ضرورت ہے

ویلس نے کہا کہ "پاکستان کو ایک اہم کردار ادا کرنا ہے۔۔۔ مگر ہم نے ابھی تک اسلام آباد کی طرف سے وہ مستحکم اور فیصلہ کن عمل نہیں دیکھا ہے"۔

"ہمارے لیے اپنے مقاصد کو حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔۔۔ اگر پاکستان ہمارے ساتھ مل کر کام نہیں کرے گا"۔

ویلس نے پیر کو پاکستان پہنچنے پر خارجہ سیکریٹری تہمینہ جنجوعہ سے ملاقات کی۔ وائس آف امریکہ نے خبر دی ہے کہ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے منگل کو ان کی ملاقات طے ہے۔

وائٹ ہاوس اسلام آباد پر دباؤ بڑھاتا رہا ہے کہ وہ ملک کے اندر کام کرنے والے انتہاپسند گروہوں پر کریک ڈاون کرے۔ اس سے پہلے اس مسئلہ پر پاکستان کی طرف سے مبینہ طور پر کوئی قدم نہ اٹھانے پر، جنوری میں پاکستان کی فوجی امداد معطل کر دی گئی تھی۔

پاکستانی حکام نے اپنی زمین پر سرگرم پاکستانی طالبانعسکریت پسند گروہوں اور القاعدہ پر کامیاب کریک ڈاون کیا ہے۔ یہ بات اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی طاہر خان نے کہی جو دہشت گردی اور پاکستان-افغانستان معاملات کے بارے میں لکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ایسے اقدامات کو تسلیم کیا ہے اور اپنی شکرگزاری کو واضح کیا ہے۔

خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "مگر ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی منظوری یا اطمینان نہیں ہے۔۔۔ افغان طالبان پر اور امریکہ پاکستان پر افغان شورش کو حل کرنے کے لیے مزید کام کرنے پر دباو ڈال رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "پاکستان نے اس سلسلے میں کچھ کام کیے ہیں اور کچھ کاموں کو ابھی کیا جانا باقی ہے"۔

]کراچی سے ضیاء الرحمان نے اس خبر کی تیاری میں حصہ لیا۔[

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500