پشاور -- مشاہدین کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا اپنے نئے کمانڈر پر قلابازی کھانا، گروہ کی اندرونی تقسیم اور ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد اس کی ناگزیر تباہی کو اجاگر کرتا ہے۔
گروہ کو 14 جون کو اس وقت ایک بڑے دھچکے کا سامنا کرنا پڑا جب ٹی ٹی پی کا راہنما ملا فضل اللہ، افغانستان کے کنڑ صوبہ کی مرہ ورہ ڈسٹرکٹ میں ہونے والے فضائی حملے میں ہلاک ہو گیا جہاں وہ 2009 سے چھپا ہوا تھا۔
ٹی ٹی پی نے ابتدا میں اعلان کیا تھا کہ ملا عمر، جو کہ ٹی ٹی پی کے نائب امیر (ڈپٹی) اور فضل اللہ کے قریبی ساتھی تھے، ان کے جانشین ہوں گے۔
تاہم، کچھ دنوں کے بعد، 23 جون کو ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے فضل اللہ کی ہلاکت کی تصدیق کی اور کہا کہ گروہ کی شوری کونسل نے مفتی نور ولی محسود کو ان کی جگہ لینے کے لیے منتخب کیا ہے۔ انہوں نے رحمان کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔
بے تحاشا جھگڑے
قیادت پر الجھن، ٹی ٹی پی کے قبائلی اور غیر قبائلی دھڑوں کے درمیان تقسیم کا اشارہ ہیں، جسے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے محسود قبیلے کے ارکان نے بنایا تھا۔
فضل اللہ اور رحمان دونوں کا تعلق خیبرپختونخواہ سے ہے، جو کہ ایک ایسا عنصر ہے جس نے قبائلی سمت رکھنے والی ٹی ٹی پی کو کئی سالوں سے تقسیم کیا ہے۔
رحمان اور محسود دونوں کو راہنما بنانے کا اعلان، ٹی ٹی پی کے اندر سوات-محسود تقسیم کی صرف ایک مثال ہے۔
ماضی میں فضائی حملوں میں اپنے کمانڈروں کی ہلاکت کے بعد، جس میں بیت اللہ محسود اور قاری حسین احمد محسود شامل ہیں، ٹی ٹی پی کو ہمیشہ سے قیادت پر جھگڑوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
فضل اللہ نے خود بھی، اپنے پیش رو حکیم اللہ کی ہلاکت کے بعد، خان سید محسود جو کہ سجنا یا خالد محسود کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں،سے اعلی ترین مقام حاصل کرنے کے لیے مقابلہ کیا تھا۔
ٹی ٹی پی کا خاتمہ؟
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے بہت سے دھڑوں کے تباہ ہو جانے یا باغی ہو جانے کے بعد، باقی رہ جانے والے بڑے گروہوں میں سوات اور محسود دھڑے ہی شامل ہیں۔ اس تقسیم کا مطلب ہے کہ ٹی ٹی پی اب ایک آپریشنل گروپ نہیں رہی ہے۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے سابقہ سفیر رستم شاہ مہمند نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ٹی ٹی پی ایک امیر تک پر اتفاق نہیں کر سکتی۔ "گروہ کا اختتام ہو چکا ہے۔ اب وہ ایسی قوت نہیں رہی جو پاکستانی حکومت کے لیے خطرہ ہو"۔
انہوں نے کہا کہ گروہ کے رحمان سے نور ولی محسود تک مڑنے نے اس کی ساکھ کو تباہ کر دیا ہے۔
مہمند نے کہا کہ عسکریت پسند "مالی یا افرادی امداد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں خواہ ان کا راہنما رحمان ہو یا ولی -- انہیں دوبارہ متحد نہیں کیا جا سکتا اور قیادت کی کشمکش ٹی ٹی پی کے لیے موت کا دھچکا ہو گی"۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے تجزیہ نگار لیفٹینٹ جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ٹی ٹی پی اب بہت زیادہ خطرناک حملے کرنے کے قابل نہیں رہی ہے اور فضل اللہ کی ہلاکت کا مطلب یقینی طور پر ٹی ٹی پی کا اختتام ہے۔ نئے کمانڈر کو منتخب کرنے کے لیے ہونے والی لڑائی ۔۔۔ ان کے لیے سنگین دھچکا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "یہ ٹی ٹی پی کی اور پاکستان کے لیے اس کے خطرے کی قدرتی موت ہے"۔
مہمات میں آتی کمی
پشاور سے تعلق رکھنے والے قبائلی صحافی ناصر داور نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے پاس بیت اللہ اور حکمت اللہ کی زیرِ قیادت حاصل ہونے والی طاقت کی کمی ہے کیونکہ نور ولی محسود کو افغانستان کے بہت اندر رہتے ہوئے اس کی قیادت کرنی ہو گی"۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ٹی ٹی پی فضل اللہ کے سوات دھڑے کے تحت طاقت سے محروم ہو گئی اگرچہ یہ دھڑہ ابھی بھی نائب امیر کا عہدہ رکھتا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ محسود دھڑے کے تحت ٹی ٹی پی کو بحال کرنے کو کسی بھی امید پر بہت وقت لگے گا۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے تجزیہ نگار اور اس وقت کے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے سیکورٹی سیکریٹری برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا کہ "نور ولی محسود کی تعیناتی کا مطلب ہے کہ ٹی ٹی پی کی آپریشنل بیس افغانستان کے پکتیا، پکتیکا یا خوست کے صوبوں میں منتقل ہو جائے گی جہاں محسود دھڑہ چھپا ہوا ہے"۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "دریں اثنا، سوات دھڑہ کنڑ اور نورستان کے صوبوں میں چھپا ہوا ہے جو دونوں پاکستان کے ساتھ سرحد رکھتے ہیں جس سے انہیں پاکستان کے اندر حملے کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن اگر کمانڈ سینٹر تبدیل ہو گا تو آپریشنل سرگرمیوں میں کمی آئے گی"۔
انہوں نے کہا کہ "محسود اور سوات دھڑوں کے درمیان کبھی بھی بہت زیادہ دوستانہ تعلقات نہیں رہے اور قیادت کے لیے جھگڑا انہیں مزید تقسیم کر دے گا"۔