سلامتی

پاکستانی طالبان کے امیر کے افغان-امریکہ مشترکہ حملے میں مارے جانے کا یقین

سلام ٹائمز اور اے ایف پی

16 جنوری 2015 کو اسلام آباد میں ایک احتجاج کے دوران، ایک پاکستانی سول سوسائٹی کی کارکن ایک پلیس کارڈ اٹھائے ہوئے جس پر تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے امیر ملا فضل اللہ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ 13 جون کو افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ایک امریکی-افغان مشترکہ کارروائی میں فضل اللہ کے مارے جانے کی اطلاع ملی تھی۔ [فاروق نعیم / اے ایف پی]

16 جنوری 2015 کو اسلام آباد میں ایک احتجاج کے دوران، ایک پاکستانی سول سوسائٹی کی کارکن ایک پلیس کارڈ اٹھائے ہوئے جس پر تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے امیر ملا فضل اللہ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ 13 جون کو افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ایک امریکی-افغان مشترکہ کارروائی میں فضل اللہ کے مارے جانے کی اطلاع ملی تھی۔ [فاروق نعیم / اے ایف پی]

واشنگٹن -- مقامی حکام اور دفاعی ذارئع کے مطابق، صوبہ کنڑ میں امریکی اور افغان فوج کی جانب سے کی گئی ایک مشترکہ کارروائی میںتحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے امیر ملا فضل اللہکو نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔

پاکستانی حکام کے مطابق، فضل اللہ، جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ چالیس سال کی عمر کے پیٹے میں تھا، نے اپنی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف پاکستانی فوج کی جانب سے کئی حملوں کے بعد پاکستان سے ٹی ٹی پی کو باہر نکال دینے کے بعد افغانستان میں پناہ لے رکھی تھی۔ اس کے فرار کا واقعہ تقریباً ایک دہائی پہلے وقوع پذیر ہوا تھا۔

افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان، لیفٹیننٹ کرنل مارٹن او ڈونل نے ایک بیان میں کہا، "امریکی افواج نے [بدھ] 13 جون کو صوبہ کنڑ میں،افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدکے قریب، ایک انسدادِ دہشت گردی کی کارروائی کی، جس میں ایک دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیم کے ایک بڑے رہنما کو نشانہ بنایا گیا۔"

بیان میں فضل اللہ کا نام نہیں لیا گیا بلکہ کہا گیا کہ امریکی افواج "جنگ بندی کی تعمیل" کو جاری رکھے ہوئے تھیں جو کابل نے افغان طالبان کے ساتھ کی تھی، بظاہر اس گروپ کی جانب سے کسی اہداف کو خارج الامکان کر رہا ہے۔

ملا فضل اللہ سنہ 2007 سے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا امیر رہا ہے۔ [فائل]

ملا فضل اللہ سنہ 2007 سے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا امیر رہا ہے۔ [فائل]

افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان، محمد رادمانیشن نے کہا، "میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ ٹی ٹی پی کا امیر ملا فضل اللہ کنڑ میں افغان اور امریکی افواج کی ایک مشترکہ کارروائی میں مارا گیا ہے۔" انہوں نے حملے کی ایک مختلف ترتیبِ زمانی دی، یہ کہتے ہوئے کہ یہ جمعرات (14 جون) کو کیا گیا تھا۔

پاکستان نے سرکاری طور پر کوئی تصدیق نہیں کی، لیکن پاکستانی اعلیٰ دفاعی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ فضل اللہ کے بارے میں یقین ہے کہ وہ مارا گیا ہے۔ پاکستانی خفیہ اداروں میں ذرائع نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، دہشت گرد کی موت کی تصدیق ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کو کی۔

پینٹاگون کے حکام نے آن ریکارڈ بیان دینے سے گریز کیا کہ آیا حملہ کامیاب تھا یا نہیں۔

ایسے واقعات کی تصدیق علاقے تک رسائی ہونے کے بغیر کرنا مشکل ہے، اور بڑے دہشت گرد رہنماؤں کو مارے گئے قرار دیا جاتا ہے رہا ہے جس کے بعد وہ دوبارہ منظرِ عام پر آ جاتے۔

ایک مطلوب ترین دہشت گرد

امریکی محکمۂ خارجہ نے مارچ میںفضل اللہ کا پتہ بتانے میں مدد کرنے والے کے لیے 5 ملینڈالر کے انعام کا اعلان کیا تھا، جو کہ پاکستان میں خونریز حملوں میں ملوث تھا اور جس نے 2010 میں نیو یارک میں ٹائم اسکوائر پر کار بم دھماکہ کرنے کی کوشش کی تھی۔

یہ کہا گیا تھا کہ گروہ نے "القاعدہ کے ساتھ قریبی اتحاد کا مظاہرہ" کیا ہے اور ٹائم اسکوائر کے ممکنہ بمبار، فیصل شہزاد کو بارودی مواد کی تربیت دی تھی۔

فضل اللہ سنہ 2007 میں پاکستان کے علاقے سوات میں بغاوت کرنے کا آلۂ کار بھی تھا اور بعد ازاں افغانستان فرار ہو گیا تھا، جہاں وہ سرحد کے دونوں اطراف اور بیرونی ممالک میں دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کرتا تھا۔

ٹی ٹی پی اکتوبر 2012 میںسوات میں ملالہ یوسفزئی کو گولی مارنےکی بھی ذمہ دار تھی جو بچ گئی تھی اور تعلیم کے لیے لڑکیوں کے حقوق کی جنگ میں ایک عالمی استعارہ بنی۔

دہشت گرد گروہ دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک اسکولپر 150 سے زائد بچوں اور اساتذہ کے قتلِ عام کا پشت پناہ بھی تھا، اور گزشتہ دسمبر میں اسی شہر میں ایک حملے کا بھی جس میں نو افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

ٹی ٹی پی کو ایک شدید جھٹکا

پاکستانی دفاع تجزیہ کار فضل اللہ کی ہلاکت کی خبروں کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔

پشاور کے مقامی ایک دفاعی تجزیہ کار اور سابقہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات کے سیکریٹری دفاع بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا، "یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بڑی کامیابی ہے۔"

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "ملا فضل اللہ ایک اہم رہنماء تھا جس نے [ٹی ٹی پی کی] صفوں میں اتحاد قائم رکھا۔ اس کی موت دہشت گردوں کے لیے ایک شدید دھچکا ہے۔"

شاہ نے کہا، "امن کو تہ و بالا کرنے کی اپنی مہم کی وجہ سے پاکستان-افغانسان سرحد کے دونوں اطراف کے مکین اس سے نفرت کرتے تھے۔ اس کی ہلاکت [ٹی ٹی پی کے] جنگجوؤں کو کمزور کرے گی، اور عوام سکھ کا سانس لیں گے۔"

انہوں نے کہا کہ فضل اللہ کی ہلاکت خطے میں طالبان مخالف مہم میں تعاون میں اضافہ کرے گی۔

انہوں نے کہا، "اس سے امریکہ، پاکستان اور افغانستان میں تناؤ سے بھرپور تعلقات بہتر ہوں گے۔ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے پر فضل اللہ کو پناہ دینے کا الزام لگاتے رہے ہیں، جس نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو [نقصان پہنچایا] ہے۔"

شاہ نے کہا، "اس کی ہلاکت عسکریت پسندوں کے لیے نقصان اور امن کی کوششوں کے لیے ایک اچھا شگون ہے۔"

ٹی ٹی پی کی حملہ کرنے کی صلاحیت کو کمزور کرنا

پشاور کے ایک اور دفاعی تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر، خادم حسین نے کہا کہ فضل اللہ کی ہلاک ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی قطار اور صف بندی کو کمزور کر دے گی۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "جلد ہی ۔۔۔ ہم طالبان کی دہشت گردی میں کمی دیکھیں گے۔ وہ ایک مربوط طریقے سے کارروائیاں کرنے کے قابل نہیں ہوں گے اور خوف کے سائے تلے رہیں گے۔"

حسین نے کہا، "یہ فضل اللہ ہی تھا جس نے خیبرپختونخوا کے مالاکنڈ کے علاقے میں پولیس افسران، فوجی سپاہیوں اور عام افراد کو قتل کیا تھا۔ اس نے دونوں ممالک میں اسکولوں، مارکیٹوں اور محکمۂ صحت کے اہلکاروں پر حملے کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔"

یونیورسٹی آف پشاور میں مطالعہ پاکستان کے ایک لیکچرار، عبدالرحمان نے کہا کہ فضل اللہ کے خلاف کارروائی نے پورے خطے میں دہشت گردوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ اب مزید زندہ نہیں رہ سکتے۔

انہوں نے اس خبر کو "عوام کے لیے عیدالفطر سے پہلے چاند رات کا ایک بڑا تحفہ" قرار دیتے ہوئے، سلام ٹائمز کو بتایا، "اس سے دنیا میں ہر جگہ عسکریت پسندی کے شکار عوام کو راحت ملے گی۔"

[پشاور سے اشفاق یوسفزئی نے اس رپورٹ میں حصہ لیا۔]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500