پشاور – اس سال کے شروع میں پشاور پولیس کی جانب سے مہیا کی جانے والی ایک موبائل فون اپلیکیشن شہر بھر میں شہریوں کو فورس سے رابطہ کرنے اور جرائم کی اطلاع اور ٹپس دینے میں مدد کر رہی ہے۔
مارچ میں جاری کی جانے والی پشاور پولیس کی ایپ گوگل پلے اسٹور سے ڈائون لوڈ کی جا سکتی ہے اور صارف کو مجرمانہ سرگرمیوں اور محل وقوع کی معلومات فوری پولیس تک پہنچانے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔
خیبر پختونخواہ (کے پی) پولیس کے ترجمان وقار احمد نے بتایا، نئی اپلیکیشن نے عوام کے لئے پولیس کو زیادہ قابل رسائی بنا دیا ہے۔
انہوں نے مئی میں پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اپلیکیشن کے آغاز کے چند ہفتوں کے اندر پولیس فورس کو مدد کے خواستگار یا اطلاع مہیا کرنے والے 2,363 انتباہ موصول ہوئے۔"
انہوں نے بتایا، ہر دن کے ساتھ ایپ انسٹال کرنے والے صارفین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
2363 شکایا ت میں سے [ہم نے] 2,337 فوری کارروائی کی، جبکہ دیگر 26 شکایات [ہم جانچ رہے ہیں] انہوں نے بتاتے ہوئے مزید کہا کہ شکایات کے پی کے تمام ضلعوں سے دیگر صوبوں سے اور یہاں تک کہ بیرون ملک سے موصول ہوئیں۔
احمد کے مطابق، مقامی پولیس اسٹیشنز کے اور پشاور سٹی پٹرول فورس کے پولیس افسران گوگل میپ کی مدد سے کسی بھی مدد کے خواہاں شخص کا محل وقوع فوری جان سکتے ہیں جو انہیں برق رفتاری سے کارروائی میں مدد دیتی ہے۔
انہوں نے بتایا، پشاور میں اس کی کامیابی کے پیش نظر ایپ کو کے پی کے دیگر ضلعوں میں متعارف کرانے کے لئے منصوبے جاری ہیں۔
صرف ایک کلک کے فاصلے پر
کے پی کے انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین خان محسود نے 22 مارچ کو ملک سعد شہید پولیس لائنز میں ایک تقریب کے دوران اس ایپ کا افتتاح کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ نئی ایپ پولیس اور عوام کے مابین اعتماد کی سطح کو بڑھانے کے مقصد سے ایک اور اقدام ہے۔
محسود نے کہا، "گزشتہ چار برسوں کے دوران پولیس فورس نے اس امر کو یقینی بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں کہ ہر کوئی فوری طور پر شکایت اور اطلاع درج کرا سکے یا بغیر کسی رکاوٹ کے اعلیٰ افسران تک رسائی حاصل کر سکے۔"
گاڑیوں اور افراد کی شناخت کی تصدیق کے ساتھ ساتھ جیو ٹیگنگ اور دیگر مقاصد کے لیے پولیس جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ متعدد تفتیشوں کو تیز تر کرنے کے لیے جدید ترین ڈیجیٹل لیبارٹریز بھی تشکیل دے دی گئی ہیں۔
کیپٹل سٹی پولیس آفیسر قاضی جمیل الرّحمٰن نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "اس ایپلیکیشن کا آغازعوام الناس کے لیے کیا گیا تھا تاکہ وہ اپنے فون پر صرف ایک کلک سے کسی بھی قسم کی شکایات یا مخبری کے لیے سینیئر پولیس افسران تک رسائی حاصل کر سکیں۔"
رحمان نے کہا کہ وہ اور دیگر اعلیٰ افسران اس ایپ، ان کے موبائل فون اور سوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہونے والی شکایات کو باقاعدگی سے چیک کرتے ہیں تاکہ فوری ردِّ عمل دیا جا سکے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس محمّد طاہر نے کہا، "تمام اینڈرائڈ فون صارفین بنا کسی تاخیر کےکسی بھی جرم، دہشتگردی اور لوگوں کی مشکوک حرکات سے متعلق پولیس کو مطلع کرنے یا فورس سے مدد طلب کرنے کے لیے یہ ایپ انسٹال کر سکتے ہیں۔"
انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کے پی پولیس جرائم اور دہشتگردی کو روکنے اور عوام کو فوری اور آسان رسائی فراہم کرنے کے لیے ٹیکنالوجی متعارف کرا رہی ہے۔
طاہر نے کہا، "گزشتہ چند برسوں کے دوران ٹیکنالوجی کے استعمال اور نئے تصورات متعارف کرائے جانے کی وجہ سے پشاور اور دیگر اضلاع میں شرحِ جرائم میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔"
ایک ردِّ عمل دینے والی پولیس فورس
پشاور کے رہائشیوں نے اس ایپ پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
پشاور میں ایک نجی سکول کے ایک 32 سالہ استاد، محمّد علی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "یہ سروس فی الحقیقت نہایت اچھا کام کر رہی ہے کیوں کہ اب [شہری] باسانی معلومات کا تبادلہ کر سکتے ہیں، شکایت درج کرا سکتے ہیں یا اعلیٰ پولیس افسران کو کسی جرم کی اطلاع دے سکتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں میں اعلیٰ پولیس افسران تک رسائی آسان ہو گئی ہے۔ ماضی میں ایسے اعلیٰ سطحی پولیس افسران تک رسائی شہریوں کے لیے مشکل امر تھا۔
حیات آباد کے ایک رہائشی نعمان احمد نے پاکستان فارورڈ کو ایک واقعے کے بارے بتایا جس میں اس نے اپنی گلی میں ہوائی فائرنگ کرنے والے افراد سے متعلق اطلاع دی۔
احمد نے کہا، "میں نے ایپ پر ایک پیغام ارسال کیا اور ایک اعلیٰ پولیس افسر کو اس فون نمبر پر ایک ٹیکسٹ بھی بھیجا جو انہوں نے مئی میں عام کیا تھا۔" انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے فوری طور پر فائرنگ روکنے کے لیے ردِّ عمل دیا اور ملوث افراد کے خلاف کاروائی بھی کی۔
انہوں نے کہا، "یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جن سے عوام کی جانب سے پولیس کو دی جانے والی اطلاع پر فوری ردِّ عمل کے ذریعے بہت سے جرائم کی بیخ کنی کی جا سکتی ہے۔"
پشاور ہی کے ایک اور رہائشی شبّیر خان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے یہ ایپلیکیشن ڈاوٴن لوڈ کی ہے لیکن اسے استعمال کرنے کا موقع ابھی تک نہیں آیا۔
انہوں نے کہا، "چند برس قبل عوام کو ادنیٰ افسران تک بھی رسائی نہ تھی، لیکن اب آپ کسی بھی ضرورت کے لیے اعلیٰ ترین پولیس اہلکاروں سے براہِ راست رابطہ کر سکتے ہیں۔"