دہشتگردی

کمزور داعش کا حملے کرنے کے لیے بچوں کی برین واشنگ کی طرف رجحان

از سلیمان

4 مارچ کو پوسٹ کی گئی داعش کی ایک ویڈیو میں بچے اسلحے کی تربیت لے رہے ہیں۔ [فائل]

4 مارچ کو پوسٹ کی گئی داعش کی ایک ویڈیو میں بچے اسلحے کی تربیت لے رہے ہیں۔ [فائل]

کابل -- افغان حکام اور حقوقِ اطفال کے کارکنان کا کہنا ہے کہ "دولتِ اسلامیہ" (داعش) افغانستان کے اندر ایک "مایوسی کی حالت" میں ہے، جیسا کہ دہشت گرد جماعت کی جانب سے اپنی غیر انسانی اور غیر اسلامی کارروائیوں کو انجام دینے کے لیے بچوں کے استعمال سے ثبوت ملتا ہے۔

حقوقِ اطفال کے کارکنان اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بچوں کو جبراً بھرتی کرنے پر داعش کی مذمت کی ہے، جو انہیں جنگی تربیت دے رہی ہے اور انہیں جلادوں کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

ان کارروائیوں کا تازہ ترین ثبوت -- جو کہ اسلامی اصولوں، جنگی اصولوں اور بین الاقوامی انسانی قوانین سے متصادم ہیں --4 مارچ کو داعش کی خراسان شام کی جانب سے جاری کردہ ایک 25 منٹ کی ویڈیو میں سامنے آیا ہے۔

ویڈیو، جو مبینہ طور پر پاکستان کے ساتھ سرحد کے قریب صوبہ ننگرہار میں بنائی گئی ہے، میں درجنوں بچوں کو دکھایا گیا ہے، جن میں سے بہت سے بچوں کو جبراً بھرتی کیا گیا ہے اور ان کی برین واشنگ کی گئی ہے، جو مسلح ہیں اور داعش کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔

4 مارچ کو جاری ہونے والی داعش کی ایک ویڈیو سے ایک سکرین شارٹ میں درجنوں بچے دکھائے گئے ہیں، ان میں سے بہت سے بچے جبراً بھرتی کیے گئے اور ان کی برین واشنگ کی گئی، جو مسلح ہیں اور داعش کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ [فائل]

4 مارچ کو جاری ہونے والی داعش کی ایک ویڈیو سے ایک سکرین شارٹ میں درجنوں بچے دکھائے گئے ہیں، ان میں سے بہت سے بچے جبراً بھرتی کیے گئے اور ان کی برین واشنگ کی گئی، جو مسلح ہیں اور داعش کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ [فائل]

داعش کی جانب سے گزشتہ برس جاری کی گئی ایک 10 منٹ کی پراپیگنڈہ ویڈیو جس میں بندوقیں لہراتے ہوئے اور داعش کے قیدیوں کو گولیاں مارتے ہوئے بچوں کے مناظر شامل ہیں۔ داعش کی خراسان شاخ نے افغانستان میں بچوں کی بھرتی کا غیر انسانی فعل جاری رکھا ہوا ہے۔ [فائل]

داعش کی جانب سے گزشتہ برس جاری کی گئی ایک 10 منٹ کی پراپیگنڈہ ویڈیو جس میں بندوقیں لہراتے ہوئے اور داعش کے قیدیوں کو گولیاں مارتے ہوئے بچوں کے مناظر شامل ہیں۔ داعش کی خراسان شاخ نے افغانستان میں بچوں کی بھرتی کا غیر انسانی فعل جاری رکھا ہوا ہے۔ [فائل]

جنوری 2017 کو جاری ہونے والی داعش کی ایک ویڈیو میں سے ایک سکرین شارٹ جس میں ایک جنگجو کو ایک بچےکو بندوق دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو میں چند منٹ بعد، بچہ ایک 'کافر' کو گولی مار کر ہلاک کر دیتا ہے۔ [فائل]

جنوری 2017 کو جاری ہونے والی داعش کی ایک ویڈیو میں سے ایک سکرین شارٹ جس میں ایک جنگجو کو ایک بچےکو بندوق دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو میں چند منٹ بعد، بچہ ایک 'کافر' کو گولی مار کر ہلاک کر دیتا ہے۔ [فائل]

دیگر بچوں کو اسلحے کی تربیت میں جبراً شرکت کرتے ہوئے اور منہ بسورتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جب انہیں ایک ترتیب دے کھڑا کیا جاتا ہے۔

داعش تباہی کے دہانے پر

افغان وزارتِ دفاع کے نائب ترجمان، جنرل محمد رادمانیش نے کہا کہ داعش افغانستان میں ناکام ہو چکی ہے اور اس نے اپنے سفاکانہ افعال کو انجام دینے کے لیے بچوں کو استعمال کرنے کا وطیرہ اپنایا ہے۔‎

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "افغانستان میں داعش کو شکست ہو چکی ہے اور وہ مکمل تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس وجہ سے، وہ معصوم افغانوں کو یہ دکھانے کے لیے گرفتار اور قتل کرتے ہیں کہ وہ ابھی بھی افغانسان میں موجود ہیں۔"

انہوں نے کہا، "داعش مکمل طور پر اپنی حیثیت اور اپنا تسلط کھو چکی ہےافغانستان کے زیادہ تر علاقوں میں جس کی بنیادی وجہ ان کی غیر انسانی سفاکیاں ہیں جو اس نے افغانوں کے ساتھ کی ہیں اور وسیع شکستیں ہیں جو اسے گزشتہ سال کے عرصے میں اٹھانی پڑی ہیں۔"

رادمانیش نے کہا، "وہ اب مایوسی کی حالت میں ہیں۔ اس وجہ سے، انہوں نے بچوں کو استعمال کرنے کا وطیرہ اپنایا ہے۔"

افغانستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن (اے آئی ایچ آر سی) کے ایک ترجمان، بلال صدیقی نے کہا، "داعش کی جانب سے بچوں کی بطور سپاہی بھرتی اور انہیں بطور جلاد تربیت دینا، نیز داعش کی جانب سے گرفتار کیے جانے والوں کو قتل کرنا، اسلامی اصولوں، جنگی اصولوں، اور افغانستان کے قانون، انسانی حقوق کی اقدار اور بین الاقوامی انسانی حقوق سے متصادم ہے۔"

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ اے آئی ایچ آر سی "دہشت گرد گروہوں کی جانب سے بچوں کو بھرتی کرنے اور بعد میں ان بچوں سے دہشت گردی کی سرگرمیاں کروانے کی بھرپور مذمت کرتی ہے۔"

افغانستان کے زیادہ تر معصوموں کو بچانا

بچوں اور نوجوانوں کے لیے سماجی تحفظ کے افغان مرکز کے ایک رکن، فیص فراہمند نے کہا، "افغانستان میں بچے زد پذیر ہیں۔ بہت سی صورتوں میں ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور انہیں دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔"

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "داعش، یا دیگر گروہوں کی جانب سے بچوں کی بطور سپاہی بھرتی، اور انہیں دہشت گرد حملے کرنے کی تربیت فراہم کرنا بین الاقوامی قوانین اور حقوقِ اطفال سے متعلق کنونشنوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔"

انہوں نے کہا، "ملک کے آئین، نیز حقوقِ اطفال پر [اقوامِ متحدہ کے] کنونشن کے مطابق، بچے ایسے حقوق اور مراعات کے مستحق ہیں جیسے کہ سماجی تحفظ، تعلیم [اور] ایک محفوظ ماحول۔ بدقسمتی سے، دہشت گرد گروہوں نے بچوں کو بھرتی کرتے ہوئے ان حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔"

فراہمند نے حکام سے یہ یقینی بنانے کا مطالبہ کیا کہ افغان بچوں کو ان کے حقوق ملیں۔

انہوں نے کہا، "افغان حکومت کا فرض ہے کہ دہشت گرد گروہوں کی جانب سے حقوقِ اطفال کی خلاف ورزی کو روکے اور تمام ممکنہ اقدامات کرتے ہوئے ان گروہوں کی جانب سے بچوں کی بھرتی کو بھی روکے۔"

افغانستان میں سیو دی چلڈرن کی ایک ترجمان، مریم عطائی نے کہا، "دہشت گرد گروہوں کی جانب سے بچوں کو ورغلانا اور بھرتی کرنا بچوں کے بنیادی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی کا اظہار ہے، ایک ایسا فعل جس کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں۔"

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "بچے جنگ میں ملوث گروہوں کے معصوم شکار ہیں۔ ہم تمام متحارب فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تنازعات اور جنگوں کے اوقات میں بچوں کو محفوظ رکھیں اور انہیں استعمال نہ کریں۔"

داعش کی بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی تاریخ

پچھلے سال،داعش نے ایک چونکا دینے والی ویڈیو جاری کی تھی جس میں دو لڑکوں کو دکھایا گیا تھا، جن کی عمریں 7 اور 12 سال کے درمیان ہونے کا یقین ہے، کہ وہ دیگر دو بچوں کو قتل کر رہے تھے۔

10 منٹ کی اس ویڈیو کے بعد والے منظر میں، فوجی وردی میں ملبوس ایک بچہ اپنے سامنے جھکے ہوئے ایک آدمی کے چہرے کی طرف بندوق کرتا ہے۔

افغان حکام اور تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ بچے، نام نہاد "خلافت کے نونہال"، داعش کی جانب سے کئی جبری حربوں کے ذریعے بھرتی، برین واش اور تربیت دیئے جاتے ہیں۔

کنڑ اور ہرات صوبوں کے ایک سابق گورنر، فضل اللہ واحدی نے جون 2017 میں سلام ٹائمز کو بتایا تھا، "داعش کے کارندے اپنے زیرِ تسلط علاقوں میں یا تو ان بچوں کو بھرتی کر کے یا اغوا کر کے تربیت دیتے ہیں۔ مزید برآں، وہ افغانوں کے بچوں کو بھرتی کرنے اور ان کی برین واشنگ کرنے کے لیے ان کی ناخواندگی اور غربت کا بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔"

یہ حربہ داعش کی جانب سے شام اور عراق میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

8 جنوری 2017 کو جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں، تین لڑکوں کو دکھایا گیا تھا، ان میں سے ایک زیادہ سے زیادہ 4 سال کی عمر کا تھا، جو کہ دیہی دیر ایزور، شام میں تین نوجوانوں کو گولی مار کر ہلاک کر رہے تھے۔

موصل، عراق میں، داعش نے دماغی معذوروں، جسمانی معذوروں اور بچوں کو ورغلایا، اور ان کو بطور انسانی ڈھال یا خودکش بمبار استعمال کرنے کے لیے ان کی زد پذیری اور کمزوری کا فائدہ اٹھایا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500