صحت

مضرِ صحت اور غیر محفوظ کھانے کی اشیا بنانے والوں کے خلاف کے پی فوڈ اتھارٹی کا کریک ڈاوٴن

جاوید خان

16 مئی کو اسلام آباد میں پاکستانی ایک یوٹیلیٹی سٹور سے (حکومتی کنٹرولڈ قیمتوں پر) خوراک خرید رہے ہیں۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

16 مئی کو اسلام آباد میں پاکستانی ایک یوٹیلیٹی سٹور سے (حکومتی کنٹرولڈ قیمتوں پر) خوراک خرید رہے ہیں۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

پشاور – خیبرپختونخوا مقتدرہٴ تحفظِ خوراک و حلال خوراک (کے پی ایف ایس ایچ ایف اے) صارفین کے لیے صحت بخش، صحت مند خوراک کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے صوبے بھر میں آپریشنز کو تیز تر کر رہا ہے۔

کے پی ایف ایس ایچ ایف اے کے ڈائریکٹر جنرل ریاض خان محسود نے 5 مارچ کو اس مقتدرہ کے آپریشنز کے آغاز کا اعلان کیا، اور تب سے، وہ روزانہ کارخانوں، ریستورانوں، قصابوں، ڈیری فارمز، سپرمارکیٹس اور خوراک تیار کرنے اور فروخت کرنے کے دیگر مقامات پر چھاپے مار رہے ہیں۔

مئی کے پہلے دو ہفتوں ہی میں، اس مقتدرہ نے مصالحہ تیار کرنے کا ایک پلانٹ، ٹھنڈے مشروبات بنانے کا ایک کارخانہ اور ہلکا کھانا بنانے کا ایک کارخانہ بند کیا۔ اس نے خراب دودھ اور 2,000 کلوگرام دیگر زائد المعیاد یا غیر معیاری مصنوعات تلف کیں۔

محسود نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "اس مقتدرہ نے خوراک کے مستند اور تجربہ کار سائنسدانوں کی ایک ٹیم بھرتی کی ہے اور بازار میں دستیاب مختلف قسم کی خوراکوں کے معیار جانچنے کے لیے تجربہ گاہیں بنائی ہیں۔"

29 اپریل کو پشاور کے گھنٹہ گھر میں خوانچہ فروش اپنے اسٹالز پر کھانا تیار کر رہے ہیں۔ [جاوید خان]

29 اپریل کو پشاور کے گھنٹہ گھر میں خوانچہ فروش اپنے اسٹالز پر کھانا تیار کر رہے ہیں۔ [جاوید خان]

انہوں نے کہا کہ کے پی ایف ایس ایچ ایف اے کا صدردفتر پشاور میں ہے اور ڈویژنل سطح پر اس کے سات دفاتر ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ تمام ڈویژنز میں افسران اور جونیئر عملہ تعینات کیا گیا ہے۔

کھانے کے کاروباروں کے لیے لائسنس اور پڑتالیں

کے پی اف ایس ایچ ایف اے کے ترجمان عطااللہ نے کہا کہ اب تک ہزاروں کی تعداد میں کے پی کے کھانے کے کاروبار کسی لائسنس کے بغیر اور متعلقہ محکموں کی جانب سے خال ہی کسی عملدرآمد کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

لائسنس حاصل کرنے کے خواہشمند کاروبار مالکان انڈرائڈ ایپ یا ویب ایپلیکیشن یا ذاتی طور پر کے پی ایف ایس ایچ ایف اے کے دفاتر میں درخواست دے سکتے ہیں۔

عطااللہ نے کہا، "کھانے کے کاروباروں پر ایک صحت مند ماحول کو یقینی بنانے کے لیے فیلڈ ٹیمیں باورچیوں، منتظمین، بیروں اور دیگر عملہ کے طبّی و دیگر ٹیسٹ موقع پر کریں گے۔" انہوں نے مزید کہا کہ کے پی ایف ایس ایچ ایف اے نے نمونوں کو پراسیس کے لیے تین تجربہ گاہیں تشکیل دی ہیں۔

انہوں نے کہا، تلاش کے نتیجہ میں، کے پی ایف ایس ایچ ایف اے نے 14 مئی کو حیات آباد، پشاور میں غیر معیاری خام مال اور گلے سڑے پھل بازیاب کیے جانے پر روح افزا بنانے والے ایک کارخانے کو مُہر بند کر دیا۔

اسی روز، اس مقتدرہ نے سکولوں کے اندر سافٹ ڈرنکس، انرجی ڈرنکس اور کھلے چپس اور اس کے ساتھ ساتھ کم عمر جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی عائد کر دی، بعد الذکر حکم مویشیوں کی آئندہ نسل کے تحفظ کے لیے ہے۔

محسود نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں کینٹینز کو خصوصی احکامات ہیں کہ طالبِ علموں کو صرف صحت مند اور تازہ خوراک ہی فراہم کی جائے۔

ایسے کریک ڈاوٴن صوبے بھر میں جاری ہیں۔

تحفظِ خوراک پر تربیت

عطااللہ نے کہا کہ صوبے کے متعدد ریستورانوں، بیکریوں، خوانچہ فروشوں اور کھانے کے دیگر کاروباروں پر ایک صحتمند ماحول میں کھانے کی تیاری کو یقینی بنانے کی سہولیات کا فقدان ہے۔

اس صورتِ حال سے بچاوٴ کے لیے، کے پی ایف ایس ایچ ایف اے نے مختلف ہوٹلوں اور کھانے کے دیگر کاروباروں کے متعدد مالکان اور منتظمین کی تربیت کی ہے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ان کا کھانا حفظانِ صحت اور صحت کے بین الاقوامی معیاروں کے مطابق ہو۔

پشاور کے ایک 34 سالہ تاجر ابراہیم خان، جو بکثرت باہر کھانا کھاتے ہیں، نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، " جیسا کہ کھانے کے کاروباروں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے کئی برسوں سے اس مقتدرہ کی ضرورت تھی—لیکن اس امر پر نظر رکھنے کے لیے کوئی باقاعدہ پڑتال نہیں کہ یہ حفظانِ صحت کے مطابق، تازہ اور صحت بخش کھانا فراہم کرتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ متعدد خوانچہ فروشوں نے مکھیوں، مچھروں اور گندے پانی سے گھرے مقامات پر اپنے کھانے کے سٹال لگائے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا، "کھانے کے ان کاروباروں کو دائرہٴ قانون میں لایا جانا چاہیئے۔۔۔ تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ صارفین کو صاف ماحول اور حفظانِ صحت کے مطابق، کھانا میسر ہو۔"

ریستوران مالکان نے بھی اس نئے مقتدرہ کی یہ کہتے ہوئے پذیرائی کی ہے کہ یہ ان کاروباروں کے پھیلاوٴ کی حوصلہ شکنی کرے گی جو محفوظ خوراک اور حفظانِ صحت کے اصولوں سے متنفر ہیں۔

پشاور میں رنگ روڈ پر ایک تکہ شاپ کے مالک اسد علی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "جب گاہک مشاہدہ کرتے ہیں کہ کھانا، باورچی خانہ اور ریستوران کے تمام حصّے صاف ہیں تو وہ گراں قیمت کے باوجود آتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ مضرِ صحت اور غیر معیاری کھانوں سے گاہکوں کو خطرے میں ڈالنے والے فاسٹ فوڈ کاروبار اور خوانچہ فروشوں کو سزا ملنی چاہیئے۔

پشاور میں ایک ریستوران کے منتظم الیاس راشد نے کہا، "یہ درست سمت میں ایک بڑا قدم ہے کہ ایک ایسا مقتدرہ تشکیل دیا گیا ہے جو روزانہ کے پی کے دسیوں لاکھوں باشندوں کے زیرِ تصرف کھانے کے معیار کی پڑتال رکھے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

داد دیتا ہوں، تاہم حیات آباد میں مصنوعی دودھ ہے۔ اصل دستیاب نہیں، بطورِ خاص فیز 6 ابراہیم مارکیٹ میں۔ آداب

جواب

عمدہ کام۔ بہت اچھے، امّید ہے یہ جاری رہے گا اور بدعنوانی کے آلہ کے طور پر استعمال نہیں ہو گا۔

جواب