لاہور—اتوار (22 اپریل) کو لاہور میں ایک آزاد عدالتی نظام لانے اور خیبر پختونخوا (کے پی) اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں ماورائے عدالت قتل کے خاتمہ کے مطالبہ کے لیے ہزاروں مظاہرین نے ایک ریلی میں شرکت کی۔
موچی گیٹ پر منعقد ہونے والی اس ریلی کا انتظام پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) نے کیا، جس کی قیادت منظور پشتین کر رہے ہیں۔
ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی (آر ایف ای/آر ایل) نے خبر دی کہ ان کا گروہ جنوری میں کراچی میں پاکستانی پولیس کے ایک چھاپے کے دوران 27 سالہ نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد سے احتجاج کر رہا ہے۔
حکام مصر ہیں کہ محسود تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا ایک رکن تھا، یہ دعویٰ جنوبی وزیرستان میں اس کے رشتہ داروں میں متنازعہ ہے۔
سچ اور انصاف
پشتین نے مطالبہ کیا کہ حکومت گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کی تفتیش کرنے کے لیے ایک سچائی اور مفاہمت کمیشن تشکیل دے۔
پشتین نے ریلی میں کہا، "ہزاروں پشتون قتل کیے گئے اور انہیں [مناسب کاروائی کے بغیر حراست میں رکھا گیا]۔"
انہوں نے کہا، "ہم تمام گمشدہ افراد کی رہائی کا مطالبہ نہیں کر رہے، لیکن ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں کسی انصاف کی عدالت کے سامنے پیش کیا جائے اور عدالت کو انصاف قائم کرنے دیا جائے ۔
پشتین نے کہا، "ہم ان سب کے لیے انصاف چاہتے ہیں جنہیں عدالتی کاروائی کے بغیر قتل کیا گیا اور ان لوگوں کے لیے جنہیں جبراً غائب کیا گیا۔"
پی ٹی ایم پشاور کے آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) میں ٹی ٹی پی کی جانب سے قتلِ عام میں جاںبحق ہونے والوں کے لیے بھی انصاف کی طالب ہے۔
ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان لیاقت علی، المعروف احسان اللہ احسان نے اپریل 2016 میں پاکستانی حکام کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ تاہم اے پی ایس حملے میں جانبحق ہونے والے 150 بچوں کے والدین احسان کے خلاف عسکری عدالتی کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پشتین نے کہا کہ یہ تحریک اس وقت تک احتجاج جاری رکھے گی، جب تک اسے انصاف نہیں مل جاتا۔ انہوں نے 29 اپریل کو سوات میں اور 12 مئی کو 2007 میں ہونے والے مہلک فسادات کے سالانہ دن پر کراچی میں اجتماع کے ارادے کا اعلان کیا۔
حکومت نے ان الزامات کو مسترد کیا کہ وہ جبری طور پر لاپتہ کیے جانے کے لیے ذمہ دار ہے۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے 28 مارچ کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ پشتون تحریک کے جائز مطالبات میں سے زیادہ تر پر حکومت پہلے ہی متوجہ ہے۔
حقوقِ انسانی کے لیے مظاہرے
لاہور میں انسانی حقوق کی فعالیت پسند حنا جیلانی، ڈیفنس آف ہیومن رائیٹس پاکستان کی سربراہ آمنہ مسعود جنجوعہ اور امن کے فعالیت پسند فاروق طارق سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے پاکستانی پشتین کے ساتھ شامل ہو گئے۔
دیگر مقررین میں اے پی ایس حملہ میں جانبحق ہونے والے طالبِ علموں کے والدین کی کمیٹی کے چیئرمین، فضل خان، انقلابی شاعر حبیب جالب کی صاحبزادی طاہرہ جالب؛ اور عوامی ورکرز پارٹی کے صدر فانوس گجر شامل تھے۔
میڈیا بلیک آوٴٹ اور ریلی پر پابندی کے باوجود وہ سینکڑوں دیگر کے ہمراہ جمع ہوئے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک ٹی وی صحافی شکیل خٹک نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "اگرچہ ضلعی انتظامیہ نے پی ٹی ایم کو مظاہرہ منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی تھی، تاہم یہ پی ٹی ایم کی جانب سے شاندار قوت کا مظاہرہ تھا۔"
انہوں نے کہا کہ لاہور اور دیگر قریبی شہروں سے خواتین سمیت مقامی رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد ریلی میں پشتونوں کے ساتھ شامل ہوئی۔
خٹک نے کہا، "اگرچہ مقامی میڈیا کی اکثریت نے [اس ریلی کی] کوریج بلاک کر دی تھی، تاہم موچی گیٹ پر تقریبا 5,000-10,000 افراد جمع ہوئے، جو کہ غیر متوقع تھا۔"
موقع پر موجود اے ایف پی کے ایک صحافی نے اندازہ لگایا کہ تقریباً 5,000 افراد نے ریلی میں شرکت کی—حالیہ احتجاجوں سے کم، لیکن شمال مغربی پاکستان میں تحریک کی بنیاد سے لاہور کی دوری کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے نمایاں مظاہرہٴ قوت تھا۔
گمشدہ کی کہانیاں
گمشدہ افراد کے رشتہ داروں نے بڑی تعداد میں ریلی میں شرکت کی، جن میں سے متعدد اپنے پیاروں کی تصویرں ساتھ لائے تھے۔
شمالی وزیرستان کے ایک رہائشی امین اللہ نے کہا کہ اس کا 15 سالہ بھائی جنوری 2016 میں لاپتہ ہوا۔
امین اللہ نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا ۔"اس وقت ناظم دسویں جماعت کا ایک طالبِ علم تھا جب اسے انڈس ہائی وے سے اٹھا لیا گیا۔" ناظم تاحال لاپتہ ہے۔
ایک اور شریک عبد المتین نے کہا کہ اس کا بھائی جلال اور کزن کاشف اللہ بالترتیب 2014 اور 2017 میں لاپتہ ہوئے۔
ایک "دیگر" احتجاج کنندہ شمعون خان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا بھتیجا محمّد عثمان لاہور میں راوی سکوائر سے اغوا ہوا تھا۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر صحافی رفعت اللہ اورکزئی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "پشتین نے اس وقت اپنی جدوجہد کا آغاز کیا جب شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نقیب اللہ کراچی میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہوا۔ پشتین نے اسلام آباد، کے پی اور بلوچستان میں بڑے مارچز کا انتظام کیا ہے۔"
انہوں نے کہا، "پی ٹی ایم گمشدہ افراد کے اہلِ خانہ کے لیے امّید کی ایک کرن بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ملک بھر میں پشتین کی پیروی کرتے ہیں۔"
آپ نے نہایت خوبصورت مکالہ لکھا ہے۔
جوابتبصرے 1