سلامتی

کے پی نے فاٹا کی حدود کے ساتھ بموں سے محفوظ سیکیورٹی ناکوں کا افتتاح کر دیا

محمّد آحل

19 مارچ کو ایک پولیس اہلکار خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات کے درمیان نو تشکیل شدہ پولیس چوکی میں داخل ہو رہا ہے۔ [محمّد آحل]

19 مارچ کو ایک پولیس اہلکار خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات کے درمیان نو تشکیل شدہ پولیس چوکی میں داخل ہو رہا ہے۔ [محمّد آحل]

پشاور – حکومتِ خیبرپختونخوا نے سرحدی علاقوں اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کی سرحد کے ساتھ "حلالِ سلامتی" کی تعمیر اور تجدید مکمل کر لی ہے۔

کے پی انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین خان محسود نے 19 مارچ کو بم دھماکوں کی مزاحمت کی خصوصیت کے ساتھ تشکیل دئے گئے 31 ناکوں پر مشتمل اس سیکیورٹی حصار کا افتتاح کیا۔

محسود نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ حصار "کے پی کے آباد علاقوں کو ہر قسم کے حملوں سے محفوظ" رکھنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا، "بنیادی ارتکاز اس امر پر ہے کہ عسکریت پسندوں یا دہشتگردوں کو قبائلی علاقہ جات پر حملے کرنے سے روکا جائے، جیسا کہ ماضی میں ہم کے پی کے آباد علاقوں اور فاٹا سے ملک کے دیگر علاقوں میں متواتر عسکریت پسند حملے دیکھ چکے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ حکومتِ کے پی نے ان 31 ناکوں پر 800 ملین روپے (6.9 ملین ڈالر) خرچ کیے ہیں، جن میں سے آٹھ فعال ہیں۔ باقی جلد ہی فعال ہو جائیں گے۔

محسود نے کہا کہ حکومت سے منظوری کے بعد تمام 31 ناکوں پر تقریباً 700-800 پولیس اہلکار تعینات ہوں گے۔

انہوں نے کہا، کہ گاڑیاں، اسلحہ اور کمیونیکیشن آلات کے پی پولیس فراہم کرے گی اور ناکوں کا عملہ حکومت کی منظوری کے بعد تعینات کیا جائے گا۔ یہ ناکے عسکریت پسندوں اور منشیات کے اسمگلروں کی نگرانی کے بھی ذمہ دار ہوں گے۔

عسکریت پسندوں کے خلاف ہراول دستہ

سیکیورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق، نئے ناکے جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہوں گے، جن سے کے پی کے شہری علاقوں کو دہشتگردوں سے درپیش ان خدشات سے محفوظ بنانے میں مدد ملے گی جو ماضی میں متعدد سیکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن چکے ہیں ۔

یہ ناکے سیکیورٹی کے اس خلا کو بھی پر کرتے ہیں جو علاقہ میں پاک فوج کی جانب سے آپریشنز کے آغاز کے بعد قبل ازاں فرنٹیئر ریجن بفر زون کو تحفظ فراہم کرنے والی ملشیا کے موقوف ہو جانے کے کی وجہ سے پیدا ہوا۔

مقامی افراد کی جانب سے خود کو عسکریت پسندوں سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے تشکیل دیے گئے ایسے ملشیا اسلحہ، منشیات اور انسانوں کی اسمگلنگ جیسی سرگرمیوں پر موٴثر طور پر قابو پاتے تھے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سیکیورٹی تجزیہ کار اور فاٹا کے لیے سابق سیکیورٹی سیکریٹری برگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "یہ بموں سے محفوظ ناکے کے پی کے آباد علاقوں کی سلامتی اور دفاع کے لیے اہم ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ خدشات تاحال موجود ہیں، اور ایسے ناکے ان کے خلاف ہراول دستہ ہوں گے۔

شاہ نے کہا کہ یہ ناکے "جدید طریقِ جنگ میں نہایت درکار ہیں"، انہوں نے مزید کہا، "یہ فاٹا سے کے پی کے آباد علاقوں میں ہونے والے عسکریت پسند حملوں کی انسداد کے لیے بھی معاون ہوں گے۔"

انہوں نے کہا کہ "پاکستان نے پاک افغان سرحد کے ساتھ ناکے تشکیل دے کر سرحد پار سے دہشتگردوں کی دراندازی کا خاتمہ کر دیا ہے، اور اب فاٹا کے ساتھ آباد علاقوں کی سرحد کے ساتھ ساتھ بموں سے محفوظ ناکوں کی تشکیل سے کے پی کے شہری علاقوں کی سلامتی میں موٴثر طور پر اضافہ ہو گا۔"

پولیس کے اعتماد میں اضافہ

جامعہ پشاور کے پروفیسر، انسدادِ دہشتگردی و قبائلی امور کے ایک ماہر سید حسین شہید سہروردی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "فاٹا اور کے پی کے درمیان بفر زون کو نہایت لیس، بموں سے محفوظ ناکوں کے ساتھ تحفظ فراہم کرنا کے پی پولیس کا ایک شاندار اقدام ہے، کیوں کہ دہشتگردوں کے خلاف اس ہراول دستے کو مستحکم کرنا لازم تھا۔"

انہوں نے کہا کہ بموں سے محفوظ ان ناکوں کی سلامتی، تحفظ پر معمور پولیس اہلکاروں کے اعتماد کو بڑھائے گی، کیوں کہ وہ ادراک کریں گے کہ حکام اہلکاروں کی زندگیوں کی قدر کرتے ہیں۔

سہروردی نے کہا، "شورش زدہ قبائلی علاقوں کے ساتھ ساتھ بموں سے محفوظ ناکوں کا اقدام بڑے شہروں کے تحفظ و سلامتی کو یقینی بنائے گا، کیوں کہ [پولیس اہلکاروں کی سلامتی کو یقینی بنانے سے] زیادہ تر خدشات کا انسداد ہو سکے گا۔"

انہوں نے کہا، "اس سے سیکیورٹی فورسز کو دہشتگردوں پر ایک نفسیاتی برتری بھی ملے گی، جو اس ہدف کو نشانہ بنانے کی جراٴت نہیں کریں گے جس پر وہ قبضہ نہیں کر سکتے یا اسے نقصان نہیں پہنچا سکتے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500