سفارتکاری

عالمی طاقتوں نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ کابل سے مذاکرات کریں ورنہ نتائج کے لیے تیار ہو جائیں

میکسم ینیسیئیف

تاشقند میں 27 مارچ کو ہونے والی کانفرنس کے شرکاء افغانستان میں امن حاصل کرنے کے طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔ ]ازبکستان کا صدارتی پریس آفس[

تاشقند میں 27 مارچ کو ہونے والی کانفرنس کے شرکاء افغانستان میں امن حاصل کرنے کے طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔ ]ازبکستان کا صدارتی پریس آفس[

تاشقند -- تاشقند میں افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اختتام طالبان کے نام اس واضح پیغام کے ساتھ ہوا کہ: مذاکرات کے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھائیں تو نتائج کو بھگتنے کے لیے تیار ہو جائیں۔

"امن کا عمل، سیکورٹی میں تعاون اور علاقائی ربط سازی" نامی کانفرنس ازبکستان کے دارالحکومت میں 26 اور 27 مارچ کو منعقد ہوئی۔ 20 سے زیادہ ممالک کے نمائندوں اور تنظیموں نے اس میں شرکت کی مگر طالبان نے نہیں۔

شرکاء افغانستان میں امن کے عمل کے بارے میں ایک متفقہ رائے تک پہنچے اور انہوں نے "تاشقند اعلامیہ" تیار کیا۔

اس اعلامیے میں "افغان قومی اتحادی حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ کسی شرائط کے بغیر براہ راست مذاکرات شروع کرنے کی پیشکش کی بھرپور حمایت" کا اظہار کیا گیا جو کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی کی طرف سے 28 فروری کو اعلان کیے جانے والے امن منصوبے کی طرف اشارہ تھا جن کے تحت طالبان کو سیاسی جماعت بننے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی (بائیں) اور ازبکستان کے صدر شوکت میرزیوئیف، تاشقند میں 27 مارچ 2018 کو افغانستان کے بارے میں بین الاقوامی کانفرنس کے دوران ہاتھ ملا رہے ہیں۔ ]ازبکستان کا صدارتی پریس آفس[

افغانستان کے صدر اشرف غنی (بائیں) اور ازبکستان کے صدر شوکت میرزیوئیف، تاشقند میں 27 مارچ 2018 کو افغانستان کے بارے میں بین الاقوامی کانفرنس کے دوران ہاتھ ملا رہے ہیں۔ ]ازبکستان کا صدارتی پریس آفس[

امریکہ اور ازبکستان کے وفود (دائیں اور بائیں) تاشقند میں علاقائی تعاون اور افغانستان کے بارے میں 27 مارچ کو بات چیت کر رہے ہیں۔ ]ازبکستان کا صدارتی پریس آفس[

امریکہ اور ازبکستان کے وفود (دائیں اور بائیں) تاشقند میں علاقائی تعاون اور افغانستان کے بارے میں 27 مارچ کو بات چیت کر رہے ہیں۔ ]ازبکستان کا صدارتی پریس آفس[

اعلامیے کی تمہید کے مطابق جنگ کو ختم کرنے کے لیے "افغان قیادت اور افغان ملکیت کے تحت کیا جانے والا سیاسی حل" جنگ کے خاتمے کے لیے لازمی ہے۔

دستخط کرنے والے چھوٹے، بڑے اور اس کے ساتھ ہی قریب اور دور سے تعلق رکھنے والے تھے۔ ان میں ازبکستان، افغانستان، امریکہ، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، جاپان، قطر، روس، ترکی، سعودی عرب، پاکستان، یورپین یونین (ای یو) اور اقوامِ متحدہ شامل تھے۔

کانفرنس کے اختتام پر تمام شرکاء نے طالبان پر زور دیا کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں۔

ازبکستان کے صدر شوکت میرزیوئیف نے کہا کہ ازبکستان "افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ازبکستان میں براہ راست مذاکرات" کی میزبانی کرنے کے لیے تیار ہے۔

طالبان نے ایک موقع گنوا دیا

طالبان متعدد بار اس کانفرنس میں مدعو کیے جانے کے باجود اس میں شامل ہونے میں ناکام رہے۔ اس غیر موجودگی کا نوٹس شرکا اور مشاہدین نے لیا۔

اس تقریب کے ایک ترجمان شیرزود قدرتخوجئیف نے 26 مارچ کو کاروان سرائے کے ایک نمائندے کو بتایا کہ "کانفرنس میں آج یا کل طالبان کے نمائںدے موجود نہیں ہوں گے۔ مگر میرا خیال ہے کہ وہ کانفرنس کے نتائج کے بارے میں سنیں گے"۔

تاشقند کے سیاسی سائنس دان امید استاللہئیف نے کاروان سرائے کو بتایا کہ "ہمیں پہلے سے ہی سمجھ آ گئی تھی کہ طالبان ممکنہ طور پر شاید کسی کو نہ بھیجیں"۔

انہوں نے کہا کہ "انہیں سپریم کمانڈر ملا اختر محمد منصور کی بلوچستان میں 2016 میں ہلاکت کے بعد سے راہنما کا انتخاب کرنے میں بڑے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ مگر کانفرنس کو ان کے لیے ایک واضح اور صاف پیغام ہونا چاہیے۔۔۔ کہ اگلی دفعہ ہو سکتا ہے کہ عالمی برادری طالبان کی طرف اپنا ہاتھ نہ بڑھائے"۔

افغان مشاہدین نے اتفاق کیا کہ طالبان نے پیش رفت کا ایک موقع گنوا دیا ہے۔

ولسی جرگہ (افغانستان کی پارلیمنٹ کا ایوانِ زیریں) کے ایک رکن زکریا زکریا نے کاروان سرائے کو بتایا کہ "تاشقند کانفرنس طالبان کے لیے اس بات کا بہت بڑا موقع تھا کہ وہ افغان حکومت اور دنیا کے ساتھ اپنے مطالبات کے بارے میں بات کرتے"۔

انہوں نے کہا کہ "بدقسمتی سے، وہ اسے استعمال کرنے میں ناکام رہے۔۔۔ مگر ان کے پاس اس کے بارے میں سوچنے کا ابھی بھی موقع ہے"۔

طالبان کے لیے انتباہ

میرزیوئیف نے کانفرنس کے موضوع کو "دلچسپی رکھنے والی تمام بیرونی طاقتوں کو ۔۔۔ فیصلہ کن اور متفقہ طور پر مسلح اپوزیشن کو امن کی میز پر آنے کا بتانے" کے طور پر بیان کیا۔

اس تقریب کے دوران امریکہ کے سیاسی امور کے سٹیٹ سیکریٹری تھامس شینن نے متنبہ کیا کہ اگر طالبان نے مذاکرات سے انکار کیا تو بین الاقوامی برادری کے پاس جنگ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا۔

ای یو کے پریس آفس کے مطابق، ای یو کی اعلی سفارت کار فیڈریکا موگیرینی نے اپنے تبصرے میں زور دیا کہ "مذاکرات اور مصالحت کے راستے کا انتخاب کریں۔ امن کے لیے ہمت رکھیں"۔

کابل سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار فرہاد ہاشمی نے کاروان سرائے کو بتایا کہ "واحد حل مذاکرات ہیں۔ افغان حکومت امن مذاکرات کے لیے واحد منزل ہے۔۔۔ اگر طالبان حکومت کی تجاویز اور تاشقند کے اعلامیے کو قبول کر لیں تو دونوں اطراف فاتح ہوں گی"۔

غنی نے ناپسندیدہ موجودگی، " دولتِ اسلامیہ (داعش) کی،جسے کہ طالبان بھی برداشت نہیں کرتے ہیں، کا حوالہ دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ تاشقند کانفرنس کے بعد امن قائم کرنے میں ناکامی، افغانستان کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔

غنی نے کانفرنس میں کہا کہ "افغانستان میں داعش کے تقریبا 2,000 عسکریت پسند موجود ہیں۔ ہمیں طالبان کو اپنے معاشرے میں شامل کرنے کے لیے لازمی لڑنا چاہیے۔ اس طرح، ہم دہشت گردوں کی دھمکیوں پر بھرپور توجہ دینے کے قابل ہو جائیں گے"۔

غنی کے مطالبے کی صدائے بازگشت میں، تاشقند اعلامیے نے طالبان پر زور دیا کہ وہ "بین الاقوامی دہشت گردی جس میں القاعدہ، داعش اور دہشت گردی کے دوسرے بین الاقوامی نیٹ ورکس شامل ہیں، سے تمام تعلقات ختم کر لے"۔

]کابل سے سلیمان نے اس خبر کی تیاری میں حصہ لیا۔[

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

کیا یہ تمام عالمی برادری یہ واضع کر سکتی ھے کہ ان کا اتحاد کشمیر۔فلسطین شام میں ھونے والا ظلم بھی بند کروائیں گی۔ اسامہ ۔ملا عمر۔و دیگر یہ سب جہادی جماعتیں اور ان کے لوگ امریکی ایجنٹ ھیں اور اسلآم مخآلف ہیں ۔پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا دھشت گردی کی جنگ کےخکاف مگرپاکستان کو امریکہ ہی آج تک پال رھآ ھہ پھر عالمی برادری پر کسطرح یقین کیا جا سکتا ھے کہ وہ افغانستآن۔میں حقیقی امن چاھتے ھیں

جواب