سلامتی

روس پوٹن کی عسکری بدمعاشی کے لیے 'کٹھ پتلی فوج' کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے

کاروان سرائے اور اے ایف پی

پیریوالنے، کریمیا میں 16 مارچ 2014 کو ایک نامعلوم شخص یوکرین کی ملٹری بیس کے باہر چوکس کھڑا ہے۔ یوکرین ویگنر گروپ کی "جائے پیدائش" ہے جو کہ زرخرید فوجیوں کا ایسا گروپ ہے جو روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے حکم پر کام کرتا ہے۔ ]دیمیتری دلکوف/ اے ایف پی[

پیریوالنے، کریمیا میں 16 مارچ 2014 کو ایک نامعلوم شخص یوکرین کی ملٹری بیس کے باہر چوکس کھڑا ہے۔ یوکرین ویگنر گروپ کی "جائے پیدائش" ہے جو کہ زرخرید فوجیوں کا ایسا گروپ ہے جو روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے حکم پر کام کرتا ہے۔ ]دیمیتری دلکوف/ اے ایف پی[

ماسکو -- روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کی طرف سے ٹھگوں اور سابقہ مجرموں پر مشتمل "کٹھ پتلی فوج" کے استعمال کا انکشاف، اس حد پر روشنی ڈالتا ہے جس تک اس کی حکومت دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرنے کے لیے جانے پر تیار ہے۔

روس کی طرف سے یوکرین میں مداخلت اور پھر غیر قانونی طور پر کریمیا کا الحاق -- منہ چھپائے ہوئے زرخرید فوجی "رضاکاروں" کو عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنے -- سے لے کر شام کی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے جنگی جرائم کی مسلسل مدد کرنے میں کریملین نے زرخرید فوجیوں کے اس گروہ کو استعمال کیا ہے تاکہ وہ متعدد متنازعہ علاقوں میں پوٹن کا غلیظ کام انجام دے سکیں۔

نام نہاد "ویگنر گروپ" کے شام کے تنازعہ میں کردار کے بارے میں سوالات، 7 اور 8 فروری کی جنگ کے بعد زیادہ شدت اختیار کر گئے جب امریکہ کے فوجیوں اور ان کے اتحادیوں پر دیر الزور کے قریب شام کی حکومت سے وفاداری رکھنے والے کئی سو جنگجوؤں نے حملہ کیا۔

میڈیا کے بہت سے ذرائع کے مطابق، امریکہ کی افواج نے ردِعمل کا اظہار کیا اور ویگنر گروپ کے 200 سے زیادہ ارکان کو ہلاک کر دیا۔

یوجینی پراگزین (درمیان میں) روس کے صدر ولادیمیر پوٹن (بائیں) اور روس کے وزیراعظم دیمیتری میدودف (دائیں) کے ساتھ اس نامعلوم تاریخ کی تصویر میں بات کر رہے ہیں۔ پراگزین زیادہ تر ویگنر گروپ کے بانی کے طور پر پہچانے جاتے ہیں جو کہ دنیا کے مختلف حصوں میں متنازعہ علاقوں میں کام کرنے والی پوٹن کی زرخرید کٹھ پتلی فوج ہے۔ ] فائل[

یوجینی پراگزین (درمیان میں) روس کے صدر ولادیمیر پوٹن (بائیں) اور روس کے وزیراعظم دیمیتری میدودف (دائیں) کے ساتھ اس نامعلوم تاریخ کی تصویر میں بات کر رہے ہیں۔ پراگزین زیادہ تر ویگنر گروپ کے بانی کے طور پر پہچانے جاتے ہیں جو کہ دنیا کے مختلف حصوں میں متنازعہ علاقوں میں کام کرنے والی پوٹن کی زرخرید کٹھ پتلی فوج ہے۔ ] فائل[

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن (درمیان میں) دیمیتری اتکن (انتہائی دائیں) اور ویگنر نجی فوجی تنظیم کے دوسرے کمانڈروں کے ساتھ تصویر کھنچوا رہے ہیں۔ خیال ہے کہ یہ تصویر دسمبر 2016 میں کھینچی گئی تھی۔ ]فائل[

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن (درمیان میں) دیمیتری اتکن (انتہائی دائیں) اور ویگنر نجی فوجی تنظیم کے دوسرے کمانڈروں کے ساتھ تصویر کھنچوا رہے ہیں۔ خیال ہے کہ یہ تصویر دسمبر 2016 میں کھینچی گئی تھی۔ ]فائل[

17 مارچ کو لی جانے والی ایک تصویر میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور شام کے صدر بشار الاسد کی حلب، شام میں پوٹریٹ کو دکھایا گیا ہے۔ ]جارج اورفیلین/ اے ایف پی[

17 مارچ کو لی جانے والی ایک تصویر میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور شام کے صدر بشار الاسد کی حلب، شام میں پوٹریٹ کو دکھایا گیا ہے۔ ]جارج اورفیلین/ اے ایف پی[

کئی دنوں کی خاموشی کے بعد، ماسکو نے تسلیم کیا کہ روس کے پانچ شہری ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں اور "درجنوں" زخمی ہوئے ہیں اور کہا کہ وہ شام میں "اپنی مرضی" سے موجود تھے۔

تاہم، روس کے تفتیشی بلاگروں کا ایک گروہ جو کہ کانفلکٹ انٹیلیجنس ٹیم (سی آئی ٹی) کے نام سے جانا جاتا ہے نے ہلاک ہونے والوں کی شناخت کی اور وہ تمام ویگنر گروپ کے ارکان تھے۔

سی آئی ٹی کے کیرل میخالوف نے اے ایف پی کو بتایا کہ "ویگنر کو روس کی شام میں کٹھ پتلی فوج قرار دیا جا سکتا ہے اور ایسا کیا جانا چاہیے کیونکہ وہ لاذقیہ اور مشرقی شام میں روس کی مہمات کے لیے اہم صفِ اول جزو فراہم کرتا رہا ہے۔

کریملین نے شام میں روس کے زرخرید فوجیوں کے کردار کو کم کرنے کی کوشش کی اور ان کی موجودگی سے انکار کیا۔

پوٹن کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے 13 فروری کو ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ "ہم صرف ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہیں جو روسی فوج کے خدمت کاروں سے متعلق ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسے دوسرے روسی شہریوں کے اعداد و شمار نہیں ہیں جو شام میں موجود ہو سکتے ہیں"۔

روسی شہریوں کی شام میں ہلاکتوں پر غصے کے شکار روسی سیاست دان گریگوری یولینسکی نے کہا کہ "میں اس بات کی وضاحت کا مطالبہ کرتا ہوں کہ صدر اور وزیرِ دفاع کے بیانات کے باوجود کہ روس کے فوجی یونٹوں کو اس ملک سے واپس بلا لیا جائے گا، روس کے شہری شام میں فوج کی زمینی مہمات میں حصہ کیوں لے رہے ہیں"۔

دخل اندازی کی ایک تاریخ

ویگنر کو روسی فوج کے سابقہ انٹیلیجنس افسر دیمتیری اتکن نے قائم کیا تھا جو کہ 2013 کے موسمِ خزاں میں شام بھیجے جانے والے روس کے زرحرید فوجیوں کے پہلے قافلے کا حصہ تھے۔

مگر ان کا نامناسب سازو سامان سے لیس مشن ناکامی کی صورت میں ختم ہوا۔ انہوں نے تھوڑی سے لڑائی میں حصہ لیا مگر جلد ہی وہ روس واپس آ گئے جہاں اس منصوبے کے دو پشت پناہوں نے زرخرید فوج کی سرگرمیوں کے باعث تین سال جیل میں گزارے۔

یوکرین سے ملنے والی باضابطہ خبروں کے مطابق، جون 2014 میں، اوتکن نے مشرقی یوکرین، جو ویگنر گروپ کی جائے پیدائش ہے، میں روس کی حامی علیحدگی پسند افواج کی صفوں میں شمولیت اختیار کر لی۔

اسی سال، روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا اور کریمیا کو ملحق کر لیا جہاں سینکٹروں روسی فوجی تعینات رہے۔

کریملین نے کییف اور مغرب کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کو مسلسل مسترد کیا ہے کہ اس کی فوج مشرقی یوکرین میں موجود ہے اور اس نے وہاں لڑنے والے روسی شہریوں کو "رضاکار" قرار دیا۔

کریمیلن کی سابقہ سویت ریاستوں اور دوسرے ممالک کے معاملات میں اپنی دخل اندازی سے انکار کرنے کی تاریخ موجود ہے جب کہ اس کے کام اس کی طرف سے خودمختار ممالک کی حاکمیت کی خلاف ورزی کرنے اور اپنے ہمسایہ ممالک کو ڈرانے دھمکانے کے لیے اس کی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

اتکن 2015 کے موسمِ خزاں میں شام میں دوبارہ سامنے آیا جہاں روس نے کریمیلن کے اتحادی، شام کے صدر بشار الاسد، کی حکومت کی مدد کے لیے مداخلت کو شروع کیا تھا۔

دسمبر 2016 میں، وہ کریملن میں "مادرِ وطن کے ہیروز" کے اعزاز میں منعقد ہونے والی ایک تقریب، جو براہ راست نشر کی گئی میں نظر آیا اور اسی دن اس کی تصویر پوٹن کے ساتھ کھینچی گئی۔

تیل کے ڈالروں پر زندہ رہنا

روس اور امریکہ کی بہت سی میڈیا رپورٹوں کے مطابق، ویگنر کو سرمایہ یوجینی پراگزین فراہم کرتا ہے جو سینٹ پیٹرزبرگ کا ایک کاروباری شخص اور پوٹن کا اتحادی ہے جس نے روس کی حکومت اور فوج کے ساتھ پرکشش معاہدے کرنے سے پہلے کیٹرنگ کے کاروبار میں پیسہ کمایا تھا۔

گروپ کے ایک سابقہ رکن نے روسی زبان کے ہفت روزہ سوورشینو سیکرینٹو کو بتایا کہ 2016 کے آغاز میں، ویگنر گروپ کو سرمایے کی فراہمی بند ہونا شروع ہو گئی جس سے "پراگزین کو دوسرے معاہدوں کو تلاش کرنا پڑا جیسے کہ دمشق سے کیا جانے والا معاہدہ جس میں ویگنر 25 فیصد پیداوار کے بدلے میں تیل اور گیس کے ذخائر اور بنیادی ڈھانچے کو آزاد کروائے گا"۔

اس کے لیے اس نے ایورو پولس کے نام سے ایک کمپنی قائم کی جس نے دسمبر 2016 میں اسد کی حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا اور اب وہ ویگنر کے زرخرید فوجیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے جن کا اندازہ 3,500 ڈالر سے 5,000 ڈالر ماہانہ کے درمیان لگایا گیا ہے۔

فرنچ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے ایک ایسوسی ایٹ ریسرچ فیلو پاول بئیف نے کہا کہ "زیادہ امکان ہے کہ پراگزین کی کمپنیاں ایک مرکز مہیا کریں گی جہاں سے دوسرے ذرائع، سے آنے والے سرمایے کو تقسیم کیا جائے گا، جس میں شام کی حکومت بھی شامل ہے"۔

روس کی کٹھ پتلی حکومت 'ایک ناکامی ہے'

شام میں ویگنر کے بہت سے جنگجوی تجزیہ نگاروں اور ذرائع ابلاغ کی طرف سے مباحثے کا موضوع رہے ہیں اور ریپبلک ڈاٹ آر یو آن لائن میگزین نے مارچ 2016 میں 2,500 زرخرید فوجیوں کی موجودگی کی خبر دی تھی۔

اس نے کہا کہ ان زرخرید فوجیوں کو تعینات کرنے پر آپریشن کے شروع ہونے سے اب تک تقریبا 350 ملین ڈالر کا خرچ آیا ہے۔

ویگنر کے سابقہ رکن نے کہا کہ کافی پیسے والے اتحادی ہونے کے باوجود، ویگنر کا مشن "بنیادی طور پر ایک ناکامی" ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھرتی کیے جانے والے چالیس فیصد رنگروٹ ویگنر میں شمولیت سے پہلے سنگین جرائم کے سلسلے میں جیل جا چکے ہیں اور ارکان ایک دوسرے کو "بدقسمت" کے نام سے پکارتے ہیں۔

رنگروٹوں کا "کم معیار" اور اس کے ساتھ ہی اس خیال کے باعث کہ ویگنر ایک خودمختار فوج کے طور پر کام کرتا ہے اور اس نے غیر روسی گروہوں سے مشن قبول کیے ہیں، شام میں زمین پر اور ماسکو کے بااختیار حلقوں کے حکام کے ساتھ کشیدگی بڑھی۔

تجزیہ نگار بائیف نے کہا کہ روس کی طرف سے کٹھ پتلی فوجوں کے استعمال کے دوہرے فائدے رہے ہیں ایک تو انکار کرنے کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور دوسرا ہلاکتوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "تاہم ویگنر گروپ جیسی املاک کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کو کبھی بھی مکمل طور پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا اور وہ منحرف ہو سکتی ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500