پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) کے حکام اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ جیل سے رہائی کے بعد قیدیوں کے پاس معاشرے کا کارآمد شہری بننے کے لیے ضروری صلاحیتں موجود ہیں۔
کے پی کے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات شہید اللہ خان نے 19 فروری کو موبائل فونز کی مرمت کی ایک دکان کا افتتاح کیا جو حکومت کی طرف سے قیدیوں کی بحالی کی کوششوں کے حصہ کے طور پر مرکزی جیل پشاور میں کھولی گئی ہے۔
خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ عام طور پر مانے جانے والے اس تصور کو تبدیل کرنے کی طرف ایک قدم ہے کہ جب لوگ جیل جاتے ہیں تو وہ زیادہ سخت مجرم بن جاتے ہیں۔ یہ ورکشاپ قیدیوں کی مدد کرے گی کہ وہ رہائی کے بعد اپنی زندگیوں کو باعزت طریقے سے شروع کر سکیں گے"۔
انہوں نے کہا کہ یہ ورکشاپ "قیدیوں کی نوآبادکاری کی طرف ایک کوشش ہے۔ پہلے مرحلے میں، 10 قیدیوں کو جن میں پانچ بالغ اور پانچ کم عمر قیدی شامل ہیں، اساتذہ تربیت دیں گے"۔
خان کے مطابق، شرکاء کی تربیت ایک ماہ سے تین ماہ کی مدت کے درمیان ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ "اس قدم سے قیدیوں کو اپنی زندگیوں کو بدلنے اور دوبارہ جرم کرنے کی بجائے اپنے کاروبار شروع کرنے میں مدد ملے گی۔ ہمارا منصوبہ صوبے کی دوسری جیلوں میں بھی کورس شروع کرنے کا ہے جو کہ جیلوں میں اصلاحات کے حکومتی پروگرام کا حصہ ہیں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "قیدیوں کی بہبود اولین ترجیح ہے"۔
موبائل فونز کی مرمت ایک 'رحمت'
کے پی کے داخلہ اور قبائلی امور کے شعبہ کے سیکریٹری اکرام اللہ خان نے ورکشاپ کے افتتاح کے موقع پر کہا کہ موبائل فونز کی مرمت ایک وسیع ہوتا کاروبار ہے کیونکہ پاکستانیوں کی اکثریت ایسے آلات کو استعمال کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "اس تربیت میں دلچسپی لینے والے اچھے تکنیکی ماہر بن سکتے ہیں اور ایک مناسب آمدن حاصل کر سکتے ہیں"۔
محمد رفیق، 26 سالہ قیدی جو ہمسائیوں سے لڑائی کے جرم میں قید ہیں، نے کہا کہ یہ تربیت ایک رحمت ہے۔
سابقہ تعمیراتی مزدور رفیق نے اخباری نمائںدوں کو بتایا کہ "یہ ہمارے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ جب میں یہاں سے چلا جاؤں گا تو حلال طریقے سے اپنے والدین کی مدد کر سکوں گا"۔
انہوں نے کہا کہ "موبائل کی مرمت کی دکان بہت کم سرمایے کے ساتھ کھولنا آسان ہے اور میں سخت مزدوری کرنے کی بجائے زیادہ آسانی سے رقم کما سکوں گا"۔
قیدیوں کے لیے پیشہ ورانہ تربیت، تعلیم
جیل کے حکامقیدیوں کو تعلیم کے مواقع فراہم کرتے رہے ہیں تاکہ انہیں رہائی کے بعد مجرموں کے ہتھے چڑھنے سے روکا جا سکے۔ یہ بات کے پی کے جیلوں کے اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل خالد عباس نے پاکستان فارورڈ کو بتائی۔
انہوں نے کہا کہ "قیدیوں کو پیشہ ورانہ اور کمپوٹر کی تربیت دی جاتی ہے جن کے ذریعے وہ رقم کما سکتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ چوری جیسے جرائم کریں۔ جیلوں کے قیدی ایسے کورسز میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں"۔
عباس نے کہا کہ تربیت کی اہمیت ہے کیونکہ ان میں جو شرکت کر رہے ہیں انہوں نے چھوٹے جرائم کیے ہیں اور وہ مستقبل میں مجرمانہ سرگرمیوں سے دور رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "حکومت کی پالیسی کے مطابق عمل کرتے ہوئے ہم قیدیوں کو ایسی مہارتیں فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو انہیں اپنی قید کو پورا کرنے کے بعد ان کی مدد کر سکیں"۔
عباس نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ کے پی نے 276 ملین روپے (2.5 ملین ڈالر) مختص کیے ہیں، کہا کہ "اگلے بجٹ میں، ہم نے 22 جیلوں میں زیادہ تعلیمی پروگرام شامل کیے ہیں تاکہ قیدیوں کو مختلف مہارتوں سے لیس کیا جا سکے"۔
انہوں نے کہا کہ "ہم قیدیوں کی معاشرے میں دوبارہ سے بحالی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں اور انہیں معاشرے میں احترام حاصل کرنے کے قابل بنانا چاہتے ہیں"۔
انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ "کڑھائی کی تربیت اور خواندگی اس پروگرام کا حصہ ہے کہا کہ "ہم خواتین قیدیوں کی فلاح کو بھی اولین ترجیح دے رہے ہیں"۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے سیاسی اور سیکورٹی کے تجزیہ نگار خادم حسین نے قیدیوں کو مفت تربیتی کورسز فراہم کرنے کی حکومتی کوششوں کی تعریف کی۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ایسے کورسز "قیدیوں کو باعزت بنائیں گے۔ وہ دوبارہ سے جرائم کرنے کی بجائے اپنی زندگیاں عزت سے گزار سکیں گے"۔