حقوقِ انسانی

پاکستان نے 'انسانی حقوق کی قدآور شخصیت' عاصمہ جہانگیر کو خراج تحسین پیش کیا

پاکستان فارورڈ

30 دسمبر 2011 کو لی جانے والی اس تصویر میں پاکستانی انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل سپریم کورٹ عاصمہ جہانگیر اسلام آباد میں میڈیا سے بات کر رہی ہیں۔ انہوں نے 11 فروری 2018 کو وفات پائی۔ ]عامر قریشی/اے ایف پی[

30 دسمبر 2011 کو لی جانے والی اس تصویر میں پاکستانی انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل سپریم کورٹ عاصمہ جہانگیر اسلام آباد میں میڈیا سے بات کر رہی ہیں۔ انہوں نے 11 فروری 2018 کو وفات پائی۔ ]عامر قریشی/اے ایف پی[

اسلام آباد – پاکستان اور بین الاقوامی کمیونٹی اختتام ہفتہ پر "انسانی حقوق کی قدآور شخصیت" عاصمہ جہانگیر کی وفات پر سوگوار ہیں، اور ان کی ہر ایک کے لیے انصاف اور مساوات کی کوششوں میں ان کی بہادری کو سراہتے ہیں۔

66 سالہ عاصمہ جہانگیر کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی شریک بانی تھیں اور ایک مرتبہ ایران میں انسانی حقوق کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی خصوصی مندوب بھی رہیں۔ ان کے خاندان نے بتایا کہ ان کی وفات بروز اتوار (11 فروری) لاہور کے ایک ہسپتال میں حرکت قلب بند ہونے کے باعث ہوئی۔

کمیشن برائے انسانی حقوق، جسے انہوں نے مذہبی اقلیتوں اور توہین رسالت کے سنگین ملزموں کے دفاع کے طور پر متعارف کروایا، بشمول"غیرت" کے نام پر قتل-- جن میں متاثرین، عموماً خواتین، کو کوئی رشتہ دار خاندان کی عزت پر دھبہ لگانے کے الزام میں قتل کر دیتا تھا۔

قانون سازی کا آغاز کر کے جبری قیدی مزدوروں کے لیے ان کے مالکان سے آزادی حاصل کرنے سے لے کر ایک اہم عدالتی مقدمے، جس میں عورتوں کو ان کے ولی کے بغیر شادی کی اجازت ملی، تک عاصمہ جہانگیر نے متعدد کامیابیاں حاصل کیں۔

11 فروری 2018 کو لاہور میں ان کی وفات کا اعلان ہونے کے بعد سوگوار پاکستانی انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کے گھر کے باہر جمع ہو گئے۔ ]عرفی علی/اے ایف پی[

11 فروری 2018 کو لاہور میں ان کی وفات کا اعلان ہونے کے بعد سوگوار پاکستانی انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کے گھر کے باہر جمع ہو گئے۔ ]عرفی علی/اے ایف پی[

سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گیٹرس نے وکیل کی وفات پر سوگواروں سے اپنی "دلی تعزیت" کا اظہار کیا۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ "ہم نے انسانی حقوق کی ایک قد آور شخصیت کھوئی ہے۔"

"خواہ مقامی انصاف کے نظام میں اپنی حیثیت میں ایک پاکستانی وکیل کے طور پر، ایک عالمی سول سوسائٹی کارکن کے طور پر یا بطور خصوصی مندوب -- وہ تمام لوگوں کے لازمی حقوق اور مساوات کی ایک انتھک حمایتی تھیں۔"

انہوں نے کہا کہ "عاصمہ شاندار، اصولوں پر عمل پیرا، حوصلہ مند اور شفیق تھیں۔"

'بہادروں میں بہادر ترین'

سوشل میڈیا ایک ایسی شخصیت کے نقصان کے غم میں بھر گیا جسے متعدد پاکستانی ملک میں "اخلاقی معیار" گردانتے تھے۔

پاکستانی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے یہ بتایا کہ وہ عاصمہ جہانگیر سے گزشتہ ہفتے آکسفورڈ میں ملیں اور کہا کہ "ان کے لیے بہترین خراج تحسین ان کی جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کو جاری رکھنا ہے۔"

صحافی وجاہت خان نے ٹویٹر پر کہا کہ وہ اور کئی دیگر لوگ عاصمہ جہانگیر کے چند نظریات سے اتفاق نہیں کرتے "لیکن وہ بہادر تھیں۔ اور ملک میں پیدا ہونے والی روشن اور بہادر ترین شخصیات میں سے ایک تھیں۔"

وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے عاصمہ جہانگیر کی وفات پر گہرے رنج کا اظہار کیا اور قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ میں ان کی خدمات کو سراہا۔

سوموار کے اخباروں کے مرکزی صفحے عاصمہ جہانگیر کو خراج تحسین پیش کرنے میں بھرے ہوئے تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں انسانی حقوق کے اہم مقدمات جیتنے کے لیے موت کی دھمکیاں، ماریں اور قید کی صعوبتیں برداشت کیں۔

ڈان اخبار نے اپنے ایک اداریہ "نڈر عاصمہ" میں کہا کہ عاصمہ جہانگیر ایسی شہری تھیں جن پر تمام پاکستانی فخر کرسکتے ہیں اور زیادہ تر ان جیسا بننے کی صرف امید کر سکتے ہیں۔

اخبار نے لکھا کہ "اصول پسند اور بہادر عاصمہ جہانگیر کو برائی کا سامنا کرنے، کمزور کا دفاع کرنے اور پاکستان کو اپنے جمہوری، آئینی اور سیکولر بنیادوں پر کام کرنے کی اپنی کی خواہش اور عزم نے انہیں حقیقت میں مثالی بنا دیا۔"

دی نیوز نے لکھا کہ "وہ ملک کے تمام مجبور لوگوں کے لیے بہادری اور بلند حوصلے سے بولیں، اور حقیقت میں پاکستان کی آواز کے طور پر کام کیا۔"

اس میں لکھا کہ "صرف ان کی موت ہی ایک ایسی شخصیت کو خاموش کر کے ہم سے چرا سکتی تھی جو اس ملک میں پیدا ہونے والے بہادروں میں سے بھی بہادر ترین تھیں۔"

انسانی حقوق میں عظیم کامیابیاں

عاصمہ جہانگیر نے 2014 میں اے ایف پی کو بتایا کہ پاکستان نے بظاہر دیکھے جانے کی نسبت انسانی حقوق میں زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ایک ایسا وقت بھی تھا جب انسانی حقوق اس ملک ٓمیں کوئی اہم موضوع نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اور اب قیدیوں کے حقوق بھی اہم موضوع ہیں۔"

"عورتوں کے حقوق کو مغربی تصور سمجھا جاتا تھا۔ اب لوگ عورتوں کے حقوق کے بارے میں بات کرتے ہیں – سیاسی پارٹیاں حتیٰ کہ مذہبی پارٹیاں بھی اس پر بات کرتی ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500