دہشتگردی

اغوا شدہ افغان بچے داعش کے دہشت گردانہ کام کرنے کے لیے 'اب تیار' ہیں

سلیمان

داعش کی ویڈیو سے لیا گیا اسکرین شاٹ جس میں ایک عسکریت پسند کو کم سن بچے کو ہندوق دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس ویڈیو میں چند لمحوں کے بعد ہی اس بچے نے ایک "مرتد" کو گولی مار دی۔

داعش کی ویڈیو سے لیا گیا اسکرین شاٹ جس میں ایک عسکریت پسند کو کم سن بچے کو ہندوق دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس ویڈیو میں چند لمحوں کے بعد ہی اس بچے نے ایک "مرتد" کو گولی مار دی۔

کابل -- مقامی حکام کے مطابق، "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کی طرف سے گزشتہ نومبر میں افغانستان سے اغوا کیے جانے والے تقریبا 300 بچوں میں سے نصف نے دہشت گردی کے کام کرنے کے لیے اپنی تربیت مکمل کر لی ہے۔

درزب ڈسٹرکٹ پولیس چیف کیپٹن اسماعیل نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "ان میں سے تقریبا 140 بچے، جن کی عمریں 14 سال سے کم ہیں، کو تربیت دی گئی ہے اور وہ دہشت گردی کے حملے اور خودکش بم دھماکے کرنے کے لیے تیار ہیں"۔

افغانستان کے صوبہ جوازجان کی ایک ممتاز قبائلی شخصیت ملک صبراللہ نے کہا کہ "درزب کے شہریوں پر داعش کی انتہائی سختی اور دباؤ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بہت سے خاندان اپنے بچے اس دہشت گرد گروہ کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گئے"۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "داعش کی طرف سے درزب اور کُش ٹیپا کی ڈسٹرکٹس میں بچوں کو بھرتی کرنا ان ڈسٹرکٹس کے شہریوں کے لیے انتہائی تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ داعش کی سرگرمیوں میں وسعت، بچوں کی بھرتی اور انہیں دھماکوں اور خودکش حملوں کے لیے تربیت دینا، جواز جان کی سیکورٹی کے لیے ماضی کے کسی بھی وقت سے زیادہ خطرے کا باعث بن گیا ہے"۔

ایک 14 سالہ بچے، جسے داعش کے عسکریت پسندوں نے اغوا کر لیا تھا، کے چچا کریم اللہ نے دسمبر میں سلام ٹائمز کو بتایا کہ "7 نومبر کو، داعش کے ارکان درزب سے 30 بچوں کو زبردستی سردارا گاوں میں واقعہ اپنے ہیڈکواٹر لے گئے"۔ اس اغوا کے بعد سے بچے کے بارے میں کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔

دوسرے تقریبا 270 بچوں کو اسی ماہ صوبے کے مختلف حصوں سے اغوا کیا گیا۔

مذہبی راہنماؤں کو نشانہ بنانا

جوازجان کے گورنر کے ایک ترجمان محمد رضا غفوری نے تصدیق کی کہ داعش مذہبی راہنماؤں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "دسمبر میں داعش کے ارکان نے ایک دینی عالم اور درزب کے دو شہریوں کا سر قلم کر دیا" جن پر انہوں نے حکومت کے شراکت دار ہونے کا جھوٹا الزام لگایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ داعش نے درزب ڈسٹرکٹ سے 27 دسمبر کو بارہ پیش اماموں کو اغوا کر لیا۔

غفوری نے کہا کہ "اس بات کا پورا امکان ہے کہ انہوں نے ان پیش اماموں کو اس لیے اغوا کیا کہ وہ ان پر عوام میں گروہ کے انتہاپسندانہ قواعد کو پھیلانے کے لیے دباؤ ڈالیں"۔

آپریشن جاری ہے

افغان اور اتحاد کی داعش کے دہشت گردوں کے خلاف کوششیں پہلے سے ہی جاری ہیں۔

غفوری نے کہا کہ "داعش پر کریک ڈاون کرنے کا منصوبہ کچھ عرصہ پہلے بنا لیا گیا تھا۔ تاہم، اپنے خلاف آپریشن کی خبر سننے پر، گروہ ایک گاوں سے دوسرے گاوں نقل امکانی کرتا رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "اس کے باوجود، داعش کو درزب اور کُش ٹیپا سے نکالنے کے لیے آپریشن کا آغاز یکم جنوری کو کر دیا گیا"۔

انہوں نے کہا کہ "اپنے پہلے فضائی حملے میں، بین الاقوامی اتحادی افواج نے درزب میں داعش کے ہیڈکواٹر کو نشانہ بنایا اور داعش کے 26 اہم ارکان کو ہلاک کر دیا جن میں 3 فرانسیسی شہری اور 4 ازبک شہری بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ دیگر 20 افراد زخمی ہوئے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500