پشاور – پاکستانی کاشتکار وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں افیون کے پوستہ اور بھنگ جیسی غیر قانونی فصلوں کے متبادل کے طور پر زعفران کی کاشتکاری کو فروغ دے رہے ہیں۔
خیبر ایجنسی کے محکمہٴ زراعت کے ایک افسر فائق اقبال کے مطابق، ستمبر 2016 میں شروع ہونے والے ایک پائلٹ پراجیکٹ کے جزُ کے طور پر ایجنسی میں 16 مقامات پر زعفران کاشت کی جا رہی ہے۔
اقبال نے محکمہٴ زراعت کی جانب سے کئے گئے جغرافیائی معلوماتی نظام کے تجزیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وادیٴ تیراہ کے علاقہ میدان میں تقریباً 30,000-31,000 ایکڑ اراضی کاشتکاری کے لیے استعمال ہو رہی ہے، جس میں سے 70 فیصد پر غیر قانونی منشیات پیدا ہو رہی ہیں۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زعفران کی کاشت کی مالی منفعت منشیات کی فصلوں کی کاشت سے کہیں زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ حکام نے ایسے علاقہ میں اس پراجیکٹ کا آغاز کیا جہاں کاشتکاروں کی اکثریت غیرقانونی منشیات کاشت کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیجوں کی افزائش، افزودگی، اور کمیونیٹی کے ردِّ عمل کے حوالہ سے نتائج نہایت حوصلہ افزاء ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ مزید اراضی پر اس بیش قیمت فصل کی کاشت کے لیے منصوبے زیرِ غور ہیں۔
انہوں نے کہا، "زعفران دنیا کا مہنگا تریں مصالحہ ہے۔۔۔ یہ مختلف ممالک کے کھانوں میں استعمال ہوتا ہے اور دنیا بھر میں چند ایک مقامات پر ہی پیدا ہوتا ہے۔"
زعفران کے بیج اور اس کی صحت بخش گانٹھیں نہایت بیش قیمت ہیں، لیکن ایک مرتبہ کی سرمایہ کاری کے نتیجہ میں کئی برسوں کی منفعت حاصل ہوتی ہے۔
اقبال نے کہا، "اس اقدام کا مقصد غیر قانونی منشیات کے بجائے یہ بیش قیمت فصل کاشت کرنے کے لیے کسانوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ کسانوں کو ایک مناسب نعم البدل دیے بغیر ہم انہیں ممنوعہ فصلوں کی کاشت سے نہیں روک سکتے۔"
منشیات اور شدّت پسندی کا منافع بخش متبادل
فاٹا میں جنگلات کی دیکھ بھال کرنے والے عبدالبصیر کے مطابق، زعفران ایک نفع بخش فصل ہے اور یہ نہ صرف فاٹا بلکہ تمام تر پاکستان میں کاشتکار برادریوں کے ذرائع معاش کو بہتر بنانے کی بیش بہا صلاحیت کی حامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوات، چترال، دیربالا اور گلگت بلتستان جیسے پہاڑی علاقوں میں بھی زعفران کاشت کی جا سکتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بھی زعفران کاشت کی جا رہی ہے۔
بصیر نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "فاٹا ایک دہشتگردی زدہ خطہ ہے، اورقبائلی پٹی میں اس آفت کے پھیلاوٴ کی ایک بنیادی وجہ پرلے درجے کی غربت، بے روزگاری اور ناخواندگی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ قبائل کے ارکان کی آمدنی میں اضافہ سے مقامی افراد کے بھٹک کر دہشتگردوں کے ہاتھوں میں چلے جانے کی انسداد کی جا سکتی ہے۔
بصیر نے کہا کہ ایک ایکڑ زمین پر زعفران کاشت کرنے سے ایک کلوگرام خشک دھاگے پیدا ہو سکتے ہیں، جس سے مقامی منڈی میں بآسانی 600,000 روپے (5,418 ڈالر) کمائے جا سکتے ہیں۔
مقابلتاً اتنے ہی رقبہ پر بھنگ کاشت کرنے سے 10 کلوگرام حشیش پیدا ہوتی ہے، جس کی مالیت 300,000 روپے (2,709 ڈالر) – یا زعفران کی کاشت سے حاصل ہونے والے منافع کا نصف ہے۔
زعفران کو ایک پرکشش انتخاب بنانا
پورے قبائلی علاقے میں تعمیر نو کی کوششوں کی نگرانی کرنے والے فاٹا ریہیبلیٹیشن اینڈ ری کنسٹرکشن یونٹ کے ایک افسر فضل عمران نے بتایا، "کاشت کاروں کا جواب بھی حوصلہ افزا ہے اب [وہ] اپنی زمین پر زعفران [کاشت] کرنے پر رضامندی ظاہر کررہے ہیں۔" .
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، فاٹا میں زعفران کی کاشت کا خیال، قدرتی ذرائع کے انتظام کے جائزے کے حصے کے طور پر قبائلی علاقہ جات کے زمینی دورے کے دوران آیا۔
دورے کے دوران، حکام نے جانا کہ کاشت کار بہتر مارکیٹ رابطوں کی بنا پر اچھی قیمت کے حصول کے لئے بھنگ کی کاشت کرتے ہیں۔
عمران نے بتایا، زعفران کی کاشت کو ترقی دینے کے لئے متعلقہ ڈپارٹمنٹس کو مارکیٹ کے روابط کو ترقی دینے کی ضرورت ہے تاکہ کاشت کاروں کو اچھا منافع فراہم ہوسکے اور انھیں زعفران کی کاشت کی تربیت دینی چاہیئے جس کی خاص تکینیک ہے۔
انہوں نے بتایا، انھیں کاشت کو مزید پرکشش بنانے کے لئے زعفران کے بلب کاشت کاروں کو مفت تقسیم کرنے چاہئیں۔
فاٹا ڈائریکٹوریٹ آف ایگریکلچر ریسرچ کے ایک کنسلٹنٹ فیض اللہ خان نے بتایا، [زعفران کو متعارف] کرانے کے علاوہ محمکمہ زراعت نے ادویاتی اور جڑی بوٹیوں بشمولنائیجیلا ساتیوا, کیروم کاپٹیکم، وائیلٹ لیف،اسپغول، سورالیا کوریلیفولیا،کمن [اور] سٹیویا کے پودے لگانے کی بھی ترویج کی ہے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، حکام جڑی بوٹیوں سے ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں کے نمائندگان کے فاٹا کے دورے کے انتظامات کررہے ہیں تاکہ خریدار اور کاشت کار کے درمیان براہ راست رابطے کے ذریعے مارکیٹ سے روابط کو ترقی دی جائے۔
خیبر پختونخواہ اینٹی نارکوٹکس فورس کے ترجمان میجر محمد عارف نے بتایا، "یہ ایک قابل تعریف اقدام ہے۔"